سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر ایس پی انویسٹی گیشن سے رپورٹ طلب کرلی
کراچی: 22 جے آئی ٹیز ہونے کے باوجود بھی لاپتا افراد کا کوئی سراغ نہیں ملا؟
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کتنی جے آئی ٹیز ہو چکی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 22 جے آئی ٹیز اور 16 صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس ہو چکے ہیں۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ 22 جے آئی ٹیز ہونے کے باوجود بھی کوئی سراغ نہیں ملا؟
تفتیشی افسر نے بتایا کہ کوششیں جاری ہیں جو پہلے اس کیس کے تفتیشی افسر تھے ان کا تبادلہ ہوگیا میری تعیناتی ابھی ہوئی ہے۔
لاپتا شہری کے والد نے بتایا کہ 2013 سے میرا بیٹا بلال اجمیر نگری سے لاپتا ہے، 11 سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک کچھ پتہ نہیں۔ 11 سال سے عدالتوں اور پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹ رہا ہوں، لیکن ابھی تک کوئی پتہ نہیں لگایا گیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ ہم پولیس کی کارروائی سے خوش نہیں ہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ سٹی کورٹ سے لاپتا شہری کی بازیابی کے لئے کیا اقدامات کیئے ہیں۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ جے آئی ٹی ہوئی ہے، جے آئی ٹی میں پتہ لگایا گیا ہے کہ لاپتا شہری غلام نبی نے فیروز آباد کے مقدمے میں سٹی کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ لیکن شہری سٹی کورٹ پیش ہوا ہی نہیں۔ ہم نے تحقیقات کی ہیں اس کے اہلخانہ اور دوستوں کو بلایا تھا پتہ لگایا ہے کہ وہ 9 دسمبر کو دوستوں اور اہلخانہ سے رابطے میں تھا۔ لاپتا شہری کے دوستوں نے بتایا ہے کہ اس نے لاکھوں کے قرضے لیئے ہوئے تھے، اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ خود چھپا ہوا ہے۔ مزید تحقیقات کے لئے متعلقہ محکموں کو خطوط لکھے ہیں۔
عدالت نے ایس پی انویسٹی گیشن سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 25 جنوری تک ملتوی کردی۔