کراچی: اسٹریٹ کرائم کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا انکشاف
کراچی: شہر قائد میں رواں سال اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 65 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا
وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کو 65 شہریوں کی ہلاکت کی تفتیش میں اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ کا عنصر نمایاں کرنے کا ٹاسک دے دیا۔
شہر میں رواں سال اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں 65 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کو رپورٹ کیا گیا ہے مگر حکومت اور پولیس نے قتل کیسز کی تحقیقات میں انکشاف کیا ہے کہ 65 شہریوں کی ہلاکت چھینا جھپٹی کے واقعات میں نہیں ہوئی ہے بلکہ اس میں دوران تفتیش 18 واقعات میں ٹارگٹ کلنگ کا بھی انکشاف ہوا ہے جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے آئی جی سندھ پولیس غلام نبی میمن کو شہریوں کی ہلاکت کی تحقیقات بہتر انداز میں کرنے کا ٹاسک دے دیا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائم ایک اہم مسئلہ ہے جس کی روک تھام کیلیے پالیسی بنالی ہے اور پولیس کو بھی ٹاسک دیا ہے کہ بڑے اور چھوٹے اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف بھرپور کریک ڈائون کیا جائے۔
وزیر داخلہ سندھ کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں شہریوں کے قتل کی تفتیش اور مقدمات کا جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا ہے کہ 48 شہریوں کا قتل اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں مزاحمت کے دوران ہوا مگر 18 سے زائد شہریوں کا قتل یا تو ٹارگٹ کلنگ ہے یا پھر ذاتی دشمنی کا نتیجہ ہے ۔
پولیس کی تفتیش میں یہ انکشاف ہونے کے بعد کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)نے ایک گروپ کا سراغ لگایا ہے جو اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کرتا تھا ، سی ٹی ڈی نے دونوں ملزمان کی جیل سے حوالگی لی اور تفتیش میں وقار اور حسنین نے 13 افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور 11 سےز ائد شہریوں کو زخمی کرنے کا انکشاف کیا۔
تفتیش سے معلوم ہوا کہ یہ گروپ 23 لڑکوں پر مشتمل ہے جو ٹارگٹ کلنگ کو اسٹریٹ کرائم کا رنگ دے کر فرار ہوجاتے تھے ، ملزمان انتہائی شاطر تھے اور اسی لیے وہ ٹارگٹ کلنگ کی واردات کو چھینا جھپٹی کا واقعہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ اسٹریٹ کرائم کراچی کا اہم مسئلہ ہے ، چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں شہریوں کی ہلاکت پر بہتر انداز میں تفتیش کی جارہی ہے اور گرفتار ملزمان کی شناخت پریڈ بھی کی جارہی ہے۔
آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ چھینا جھپٹی کے واقعات میں 65 سے زائد شہریوں کی ہلاکت رپورٹ کی گئی ہے لیکن پولیس نے ان تمام قتل کیسز کی تفتیش کی، 49 مقدمات درج کیے اور 35 کیسز کو حل کیا ان میں 15 ملزمان کو ہلاک اور 53 کو گرفتار کیا مگر جب گرفتار ملزمان سے تفتیش کی گئی تو انکشاف ہوا کہ کچھ گروپ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی آڑ میں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کررہے ہیں اور قتل کو اسٹریٹ کرائم کا رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
آئی جی سندھ نے بتایا کہ ان گروپس کی بھی نشاندہی ہوچکی ہے جن کے خلاف کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور اسپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) کام کررہا ہے ۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ کا کہنا ہے کہ شہر کراچی میں بین الاقوامی ٹارگٹ کلرز کا گروپ بھی ایکٹو ہے اور یہ گروپ گرفتاری سے بچنے کیلیے ٹارگٹ کلنگ کی بڑی واردات کو بھی اسٹریٹ کرائم کی واردات کا رنگ دیتا تھا تاکہ گرفتاری سے بچا جاسکے یا پھر پولیس ان ملزمان کی گرفتار میں وہ دلچسپی نہ رکھے جیسے کسی بڑی ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں رکھتی ہے۔
یہ گروپ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے بعد کسی بھی کیس میں جیل چلا جاتا تھا اور پھر وہاں سے آپریٹ کرتا تھا اور رہائی کے بعد پھر ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کرتا تھا ، یہ گروپ کراچی کے کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ پورے کراچی میں بدامنی پھیلانے کیلیے ٹارگٹ کلنگ کرتا تھا جسے گرفتار کرنا سندھ پولیس کی اہم کامیابی ہے ۔