زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کی تعداد 45 ہو گئی
وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی آئی جی حیدر آباد کو تحقیقات کر کے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ دینے کا حکم دیے رکھا ہے۔
صوبہ سندھ کے تقریباً ہر ضلع میں کچی شراب تیار کرنے کا کاروبار کھلے عام کیا جاتا ہے جس کی سرپرستی کا الزام پولیس پر لگایا جاتا ہے اور محکمہ ایکسائز کا عملہ بوجوہ چشم پوشی کرتا ہے۔ مقامی طور پر کیمیائی مواد سے تیار کی گئی شراب کو کچی شراب کا نام دیا جاتا ہے۔سندھ پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ نے بدھ کو حیدرآباد میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ پولیس بھی ذمہ دار ہے
حیدرآباد کے ایک حکیم الاہی بخش بتاتے ہیں کہ کچی شراب کی تیاری میں سبزیاں، خراب قسم کا گڑ اور گنے کے چھلکا اور دیگر اشیا استعمال کی جاتی ہیں۔ ان اجزا کی تین چوتھائی کو ملا کر مٹکے میں رکھ کر زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’تین چار روز بعد اسے نکالنے سے پہلے بھٹی میں پکایا جاتا ہے پھر نتھارا جاتا ہے اور اس کے بعد فروخت شروع کر دی جاتی ہے۔ اس میں بعض اوقات تیز نشے کی خاطر بعض ایسے اجزا بھی شامل کر دیے جاتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر پہلاج نے ہلاک ہونے جانے والے 11 افراد کا پوست مارٹم کیا، جو کچی شراب پینے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ تمام لوگوں کے معدے پھٹ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ زہریلی اشیا ہضم نہیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر معدہ پھٹ جاتا ہے۔
سندھ پولیس کے سربراہ اے ڈی خواجہ نے ہلاک شدگان کی تعداد 45 بتائی ہے اور کہا کہ ان کے پاس ناموں کی فہرست موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل جب صوبائی وزیر ایکسائز گیان چند ایسرانی نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 37 بتائی تھی۔ وہ ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
ٹنڈو محمد خان کے ایک نجی اسپتال کے رجسٹرار ڈاکٹر شیراز میمن کا کہنا تھا کہ مریضوں کی حالت غیر تسلی بخش تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کا پورا جسم بری طرح متاثر تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کیمیائی مواد سے تیار کی جانے والی شراب نوشی سے زندہ بچ جانے والے افراد کی بینائی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
صرف 80 روپے
دو گلاسوں کے برابر مقدار کی نشہ آور مشروب کی قیمت 80 روپے وصول کی جاتی ہے۔ یہ پلاسٹک کی تھیلی میں فروخت کی جاتی ہے۔
سندھ بھر میں شاید ہی کوئی ایسا ضلع ہوگا جہاں مختلف قسم کے کیمائی مواد سے یہ نشہ آور چیز نہ تیار کی جاتی اور فروخت نہ ہو رہی ہو۔ اس کے خریدار کم آمدنی والے لوگ ہی ہوتے ہیں۔
مورو کے رہائشی نغمہ ملاح نامی خاتون نے حیدرآباد میں فروری 2012 میں پریس کلب پر احتجاج کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’گھروں میں خواتین کو ان کے والدین اور شوہر مجبور کرتے ہیں کہ بھٹی پر بیٹھا کریں تاکہ شراب کشیدی جا سکے اور میں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ کیسے نہ کرتی۔ انکار کی صورت میں مرد مارتا تھا۔ اب میں نے طلاق لے لی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کو یہ کام نہ کرنا پڑے۔‘
حیدرآباد اور پڑوسی اضلاع میں اکتوبر 2014 میں ایک ہفتے کے اندر اندر 60 افراد ایسی ہی کچی شراب پینے کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ اس وقت حیدرآباد پولیس ہیڈ کوارٹر کے ایس پی حیدر رضا نے اس کی بنیادی ذمہ داری محکمہ ایکسائز پر عائد کی تھی اور ٹنڈو جام کی مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے جب وہاں چھاپہ مارا تھا تو وہاں پورے گاؤں نے مزاحمت کی تھی کیوں کہ اسے صنعت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔
ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پولیس نے مختلف اضلاع میں چھاپے مار کر کچی شراب فروخت کرنے والوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گرفتار شدہ لوگوں کو پولیس عدالت میں پیش کر دیتی ہے۔ ماضی میں اکثر ایسے لوگوں کی ضمانت ہو جاتی ہے اور بڑے ملزمان فرار ہو جاتے ہیں۔
آئی جی پولیس نے بھی اعتراف کیا کہ ٹنڈو محمد خان واقعہ کا بڑا ملزم علی نواز پھنور بھی فرار ہو گیا ہے