سندھ: مساجد میں ‘سرکاری خطبہ جمعہ’ کا فیصلہ
مختلف مکتبہ فکر میں ‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی’ پیدا کرنے کے لیے حکومت سندھ نے صوبائی اسمبلی میں ایک بل پیش کرنے اور اسے منظور کروانے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کا مقصد صوبے کی تمام مساجد میں حکومت کی جانب سے منظور کردہ ‘ایک خطبہ جمعہ’ کو نافذ کرنا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے مشیر برائے مذہبی امور عبدالقیوم سومرو نے نجی ٹی وی چینل ‘جیو’ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ منصوبہ حکومت کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد خطبے کے دوران نفرت انگیز تقاریر اور بیان کا خاتمہ ہے، جس سے دیگر مکاتب فکر کے ماننے والوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
عبدالقیوم سومرو کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں پیش کیے جانے سے قبل بل کو حتمی شکل دینے میں کچھ مزید وقت لگ سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت تمام فریقین سے مشاورت کے بعد اس مرحلے کو حتمی شکل دینے کے بہت قریب ہے، جن میں تمام مکتبہ فکر کے پانچوں نمائندہ بورڈز کے سینیئر خطیب شامل ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تمام افراد نے سندھ حکومت کے اس اقدام سے اتفاق کیا ہے، جو ملک بھر میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔
عبدالقیوم سومرو کا کہنا تھا کہ اس مسئلے پر تمام مکتبہ فکر کے مذہبی رہنماؤں کی جانب سے اتفاق قائم ہونے کے بعد کسی کو بھی اس قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ‘ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے تعاون، مدد اور رہنمائی کے ساتھ آگے بڑھنے اور نفرت اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے پرعزم ہیں’۔
تاہم ایک اہم تنظیم کے سینیئر رکن کا کہنا تھا کہ وہ مذکورہ قانون سازی کے لیے مذہبی رہنماؤں سے کسی بھی قسم کی مشاورت کے حوالے سے لاعلم ہیں۔
پانچ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کی نمائندہ تنظیم، اتحاد تنظیم المدارس دینیہ کے جنرل سیکریٹری قاری محمد حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ ‘یہ (قانون) سننے میں ناممکن معلوم ہوتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ "میں نہیں سمجھتا کہ صوبے کے مختلف حصوں میں قائم مساجد کی تعداد اور ان کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اس طرح کے کسی بھی اقدام کے بارے میں سوچ سکتی ہے”۔
قاری حنیف جالندھری کاکہنا تھا کہ ‘ایسی قانون سازی ہونی چاہیے جو عوام کو سہولت مہیا کرے’۔
‘یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف وزری ہے کہ آپ یہ طے کریں کہ عوام اور مذہبی رہنما کیا کہیں گے۔ خطبہ جمعہ کا مقصد لوگوں کو تعلیم فراہم کرنا ہے، نا کہ نفرت انگیز تقاریر یا فرقہ واریت پھیلانا’۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘اگر حکومت موجودہ قوانین پر عمل درآمد کروائے تو عملی نقطہ نظر سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے’۔