لشکر طیبہ، جماعۃ الدعوہ اور اس کے سربراہ حافظ سعید کا سب سے بڑا حمایتی ہوں، پرویز مشرف
کراچی: سابق صدر پرویز مشرف نے اعلان کیا ہے کہ وہ کالعدم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ پرویز مشرف نے لشکر طیبہ، جماعۃ الدعوہ اور اس کے سربراہ حافظ سعید کی حمایت کا اعلان نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں ملک کی 23 جماعتوں کے گرینڈ الائنس کے حوالے سے بات چیت کے دوران کیا۔ ٹاک شو کے دوران میزبان نے سوال کیا کہ کیسا لگے کہ کا ایک روشن خیال اور لبرل نقطہ نظر رکھنے والے پرویز مشرف مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل اور پاکستان سنی تحریک جیسی مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھے ہوں؟جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ ہاں میں لبرل ہوں اور یہ میرے خیالات ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تمام مذہبی جماعتوں کے خلاف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں لشکر طیبہ کا سب سے بڑا حمایتی ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ لشکر طیبہ اور جماعۃ الدعوہ والے مجھے پسند کرتے ہیں۔ حافظ سعید کو پسند کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ وہ انہیں پسند کرتے ہیں اور ان سے ملے ہوئے بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ کشمیر میں ان کی حمایت میں رہے ہیں اور ہمیشہ اس بات کی بھی حمایت کی ہے کہ کشمیر میں بھارتی فوج کو دبانا ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑی طاقت ہے جسے بھارت نے امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گرد قرار دلوا دیا۔
سابق صدر نے کہا کہ 2008ء کے ممبئی حملوں میں لشکر طیبہ ملوث نہیں تھی اور ان پر بھارت اور اس کے حمایتی واشنگٹن کی جانب سے الزامات لگائے گئے تھے۔ انٹرویو کے دوران سابق آرمی چیف نے کہا کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن کی جانب سے جاری ہونے والا بیان پاکستان کی خود مختاری کی توہین تھی۔ اپنے بیان میں امریکا نے پاکستان کو کہا تھا کہ وہ حافظ سعید کو دوبارہ گرفتار کرے کیونکہ امریکی محکمہ انصاف نے انہیں دہشت گرد قرار دیا ہے، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان کو حافظ سعید کی گرفتاری یقینی بنانی چاہیئے اور انہیں ان کے جرائم کی سزا دینی چاہیئے۔ واشنگٹن کا کہنا تھا کہ جماعۃ الدعوہ کے سربراہ کی رہائی بین الاقوامی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستانی عزم کے حوالے سے ایک پریشان کن پیغام ہے۔ امریکا نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ اگر حافظ سعید کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو پاکستان کو دو طرفہ تعلقات میں اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ اس طرح کی زبان پاکستان کی خودمختاری کی توہین ہے اور میں کبھی ایسی زبان برداشت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کریں، ہم فیصلہ کریں گے کہ کون اس کا سربراہ ہے اور ہم ہی فیصلہ کریں گے کہ کسے سزا دی جائے۔ سابق صدر نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرہ نہیں لیکن ہمیں ملکی ضروریات کے مطابق اس میں پائیداری کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نظام میں ترمیم، سیاسی تنظیم نو، انتخابی اصلاحات اور توازن کی ضرورت ہے۔ سابق صدر نے کہا کہ ہمیں پاکستان کی ضرورت کے مطابق جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو پائیدار کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں سب سے اہم معاملہ فوج کا ہے اور وہ ایک کردار ادا کرتی ہے۔