سندھ پولیس کے 12 ہزار اہلکار مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث، رپورٹ
کراچی: سپریم کورٹ میں محکمہ پولیس کے اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران صوبائی حکام کی جانب سے 12 ہزار ایسے پولیس اہلکاروں کی فہرست پیش کی گئی جو جرائم اور طاقت کے غلط استعمال میں ملوث ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی، سماعت کے آغاز میں محکمہ داخلہ کی جانب سے ایک نئی رپورٹ پیش کی گئی، جس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی ایس پی نثار احمد بروہی کو 134 سپاہیوں کی غیر قانونی تقرریوں میں ملوث پانے کے بعد مستقل ریٹائر کردیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سابق انسپکٹر جنرل پولیس ( آئی جی پی) سندھ غلام حیدر جمالی، سابق اے آئی جی فنانس فدا حسین، سینئر سپرٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) غلام اظہر مہیسر، ضلع مٹھیاری کے ایس پی امجد احمد شیخ اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز پولیس افسران کا طرز عمل غیر قانونی پایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ایس ڈی پی او شارع فیصل شکیل احمد سرفراز کو ایک وکیل اور اس کی اہلیہ کو غیر قانونی طور پر پولیس اسٹیشن میں رکھنے پر تنخواہ میں کمی کرکے جرمانہ عائد کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 17 گریڈ کے 21 افسران کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گڑھی خیرو کے ایس ڈی پی اور جیکب آباد کے ڈی ایس پی عبدالمجید ابڑو کی 15 سالہ لڑکی کے قتل کے مقدمے میں نامزدگی پر شو کاز نوٹس جاری کیا گیا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور صوبائی ہوم سیکریٹری کو 18 گریڈ اور اس سے اوپر کے 35 پولیس افسران اور بی ایس 17 کے 31 حکام کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے حوالے سے جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
گزشتہ سماعت میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ جرم میں ملوث افسران اور کم درجہ رکھنے والے افسران کے خلاف کارروائی میں کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس میں تاخیر کی گئی۔
آئی جی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ بی ایس 16 درجے تک محکمہ پولیس کارروائی کرنے کا مجاز ہے، پولیس کا سربراہ گریڈ 17 یا اس سے اونچے درجے کے افسر کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر داخلہ بی ایس 17 کے حکام کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہے جبکہ بی ایس 18 اور اس سے اونچے درجے کے خلاف کارروائی وزیر اعلیٰ کو ایس جی اے اور سی ڈی کے تحت کارروائی کا اختیار ہے۔
اے ڈی خواجہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ انہوں نے بی ایس 17 کے 31 اہلکاروں کی فہرست محکمہ داخلہ جبکہ بدعنوانی میں ملوث بی ایس 18 کے 35 افسران کی فہرست چیف سیکریٹری کو بھجوادی ہے۔