راؤ انوار کے رائیٹ ہینڈ کے ہوشربا انکشافات، بے گناہوں کو کیوں اور کیسے مارا، جان کر آپکا بھی خون کھول اٹھے
کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے پولیس مقابلوں کے حوالے سے تمام راز اگل دیے۔
ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کے مطابق مقابلوں کی جگہ کا انتخاب کرنا، وہاں پرعارضی کھانے پینے کا سامان رکھنے کا انتظام مبینہ طور پرانسپکٹر شعیب شیخ کرتا تھا جبکہ مبینہ دہشت گردوں کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے دفتر کے عقب میں قائم ایک مکان میں رکھتے تھے وہاں کا انچارج معطل سب انسپکٹر انار خان تھا اس کے علاوہ ہیڈ کانسٹیبل چوہدی فیصل بھی معاونت کرتا تھا، گرفتار ملزم علی رضا بلوچستان پولیس کا اہلکار ہے جو گزشتہ 10 سال سے کراچی میں ڈیوٹی دے رہا تھا، سابق ایس ایس پی ملیرکے فرار ہونے کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ 13 جنوری کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے میں مبینہ پولیس مقابلے میں 4 ملزمان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ سابق ایس ایس پی ملیر نے کیا تھا ان میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود بھی تھا جس کے خلاف پولیس کو کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں ملا، مقابلے میں مارے جانے والوں میں شامل نقیب اللہ کی جب شناخت ہوئی تو جعلی مقابلے کا شور مچا اور بعدازاں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو بھی اس کا نوٹس لینا پڑا جس کے بعد انھوں نے نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک انکوائری ٹیم تشکیل دی جس نے تمام واقعے کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہوئے 24 گھنٹے کے اندر تحقیقات مکمل کر کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا تھا۔
جس کے بعد نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں سچل پولیس نے راؤ انوار سمیت دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام واقعے کی رپورٹ طلب کی تھی ، جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے تمام افسران و اہلکار روپوش ہوگئے اور اس دوران راؤ انوار کا دست راست ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کراچی سے فرار ہو کر کوئٹہ چلا گیا جہاں اس نے اپنی آمد پولیس ہیڈ کوارٹر کوئٹہ میں کرائی جس کے بعد کراچی پولیس کو اس کی اطلاع مل گئی اور پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل علی رضا کو کوئٹہ میں چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا، ذرائع نے بتایا گرفتار ملزم علی رضا نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ نقیب اللہ اپنے 2 دوستوں کے ساتھ گزشتہ ماہ 3 جنوری کو سچل کے علاقے میں واقع ایک ہوٹل پر بیٹھ کر دکان کرایے پر لینے کی باتیں کررہا تھا اور اس موقع پر ان کی میزکے برابر میں بیٹھے ہوئے پولیس کے مخبر نے فوری طور پر سائٹ سپر ہائی وے تھانے کے ہیڈ محرر چوہدری فیصل کو اطلاع دی کہ وزیرستان سے آئے ہوئے 3 نوجوان کراچی میں روپوش ہیں جو کہ فرضی ناموں سے یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔
اس اطلاع پر چوہدری فیصل سچل تھانے کے چوکی انچارج علی اکبر ملاح کے ہمراہ ہوٹل پر چھاپہ مار کر تینوں نوجوان کو حراست میں لے لیا 2 نوجوانوں کو چند روز تک تفتیش کرنے کے بعد رہا کر دیا جبکہ نقیب اللہ محسود کے بارے میں چوہدری فیصل اور چوکی انچارج علی اکبر ملاح نے سابق ایس ایس پی ملیر کو بتایا کہ نقیب اللہ کا تعلق وزیرستان اور وہ کالعدم تنظیموں کے لیے کام کرتا ہے اور شہر میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث بھی ہے جس پر ایس ایس پی نے حکم دیا کہ نقیب اللہ کو بھی ڈیتھ سیل پہنچا دو جہاں پر مبینہ طور پر دیگر دہشت گرد بھی موجود تھے اس سیل میں جانے کے بعد پکڑے گئے ملزمان کا ان کاؤنٹر لازمی ہوتا تھا، ذرائع نے بتایا کہ گرفتار ہیڈ کانسٹیبل علی رضا نے تفتیشی افسران کے سامنے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اس سیل میں وہی مبینہ ملزم جاتا تھا جس کو بلیک قرار دیا جا چکا ہوتا ہے اور جس مبینہ ملزم کو سفید قرار دیا جائے اس کا مطلب اسے رہا کردو، اکثر و بیشتر پولیس مقابلے سپر ہائی وے اور اس کے اطراف میں ہوتے تھے جس کے لیے جگہ کا تعین مبینہ طور پر انسپکٹر شیعب شیخ کرتا تھا 13 جنوری کے مقابلے کی جگہ کا تعین سابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے اپنے علاقے میں کروایا تھا اور چاروں ملزمان کو بکتر بند میں بیٹھا کر چوہدری عامراپنے جوانوں کے ساتھ جائے وقوع پر لایا تھا۔
ذرائع نے بتایا ملزم علی رضا نے دوران تفتیش مزید انکشاف کیا وہ کوئٹہ پولیس کا بھرتی ہے اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار جب 2001 میں جب کوئٹہ میں تعینات ہو کر آئے تھے تو وہ ان کے ساتھ سیکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ہوگیا اور ان کی خدمات کرتا رہا جبکہ راؤ انوار دوبارہ سے کراچی ٹرانسفر ہوئے تو وہ مجھے بھی اپنے ساتھ کراچی لے آئے جس کے بعد سے وہ ان کے ساتھ کام کرنے لگا، سابق ایس ایس پی ملیر کے تمام کاموں کی جس میں جائز اور ناجائز دونوں شامل ہیں ان کی دیکھ بھال کرتا تھا، گرفتار ملزم علی رضا نے تفتیش کاروں کو مزید بتایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی کراچی سمیت پورے پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں ہے۔
سابق ایس ایس پی ملیر کی پوری فیملی بیرون ملک میں مقیم ہے، راؤ انوار کی گزشتہ 19 جنوری کو ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے دفتر میں پہلی پیشی ہوئی تھی اس دن میری ان سے ملاقات ہوئی اس کے بعد سے میرا ان سے کسی بھی قسم کا کوئی رابطہ نہں ہوا، ذرائع نے بتایا کہ ملزم کا کہنا ہے کہ راؤانوار کی ٹیم میں ایس ایچ اوسہراب گوٹھ شعیب شیخ، ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاون امان اللہ مروت، ایس ایچ او گڈاپ سٹی خان نواز، سب انسپکٹر انار خان، ہیڈ محرر سائٹ سپرہائی وے چوہدری فیصل، خیر محمد ، سچل پولیس چوکی انچارج علی اکبر ملاح اور محمد عامر نامی شخص شامل ہے جس کا پولیس سے کوئی تعلق نہیں، ملیر میں کسی بھی قسم کا غیرقانونی کام سابق ایس ایس پی ملیر کی اجازت کے بغیرکوئی نہیں کر سکتا تھا اور راؤانوار نے ہر کام کے لیے الگ الگ پولیس افسر و اہلکار کو مقرر کیا ہوا تھا۔
کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے پنجاب پولیس کو خط لکھ دیا جس میں رائو انوار کے مبینہ جھوٹے پولیس مقابلے میں مارے جانے والے صابر اور اسحاق کے کوائف طلب کر لیے ہیں، مقابلے میں حصہ لینے والے ایک اہلکار کو گواہ بنا لیا گیا جبکہ ضلع ملیر میں 13 جنوری سے قبل تعینات بیشتر اہلکار کراچی سے تاحال فرار ہیں، تفصیلات کے مطابق نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقات جاری ہے، گزشتہ روز کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ ( سی ٹی ڈی ) نے پنجاب پولیس کو خط لکھ دیا ہے جس میں سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے ساتھ جھوٹے پولیس مقابلے میں مارے جانے والے 2 افراد اسحاق اور صابر کے بارے میں تفصیلات طلب کی گئی ہیں، اسحاق اور صابر کا تعلق پنجاب کے شہر بہاولپور سے تھا، سی ٹی ڈی حکام نے ایکسپریس کو بتایا کہ دونوں افراد کے حالات زندگی، رہن سہن، چال چلن اور اگر کوئی مجرمانہ ریکارڈ ہے تو ان تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔