انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا ضمنی چالان منظور کرلیا ہے جس میں راؤ انوار کو جعلی پولیس مقابلے کا مرکزی کردار قرار دیا گیا ہے۔کراچی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی اس موقع پر ڈی ایس پی قمراحمد سمیت 11 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو پیش نہیں کیا جاسکا۔جیل حکام نے راؤ انوار کی بیماری کا میڈیکل سرٹیفکیٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم راؤ انوار بیمار ہے اس لیے پیش نہیں ہوسکتا، راؤ انوار کو پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر راؤ انوار کو ہرصورت پیش کرنے کی ہدایات کی۔تفتیشی افسر نے نقیب اللہ قتل کیس کا ضمنی چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کردیا جسے عدالت نے منظور بھی کرلیا ہے۔ضمنی چالان میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اب تک کی تفتیش سے مقتولین کو دہشتگرد قرار دیتے ہوئے جھوٹے پولیس مقابلے میں ہلاک کرنا ثابت ہوتا ہے، بادی النظر میں پولیس مقابلہ منصوبہ کے تحت کیا گیا، ڈی این اے رپورٹ کے مطابق ملزمان کو ایک سے 5 فٹ کے فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔ سابق ایس ایس پی ملزم راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 12 ملزمان گرفتار ہیں، جب کہ اے ایس آئی گدا حسین اور سب انسپیکٹر محمد شعیب عرف شعیب شوٹر سمیت 13 سے زائد ملزمان تاحال مفرور ہیں۔ضمنی چالان میں بتایا گیا ہے کہ ملزم راؤ انوار جھوٹے پولیس مقابلے کا مرکزی کردار ہے،جیو فینسنگ رپورٹ کے مطابق ملزم راؤ انوار جائے وقعہ پر موجود تھا، واقعے کے بعد اور واقعے کہ وقت تمام ملزمان ایک دوسرے سے رابطے میں تھے، دوران تفتیش ملزم راؤ انوار اپنے ملوث نہ ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا، ملزم راؤ انوار مسلسل حقائق بتانے سے بھی گریز کرتارہا۔
نقیب اللہ کیس کا پس منظر
13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔