چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سندھ میں دس سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن مجھے ایک بھی ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آیا۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کراچی رجسٹری میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے عدالت کو کالا باغ ڈیم اور ملک میں پانی کی کمی سے متعلق بریفنگ دی۔ظفر محمود نے عدالت کو بتایا کہ 90 سے 95 فیصد پانی ذراعت میں استعمال ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلی پر پاکستان میں سیلاب آنا شروع ہوئے، گلیشیر تیزی سے پگھلنا شروع ہوچکے ہیں، زیر زمین خطرناک حد تک نیچے جا چکا، کوئٹہ کا پانی اتنا نیچے جا چکا ہے کہ بحالی میں 2 سو سال لگیں گے، انڈس واٹر معاہدے سے بھی خطرات ہوچکے ہیں، بھارت نے تین دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر قبضہ کر لیا ہے، بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کرے گا، بھارت ہمیں پانی کے حوالے سے مزید تنگ کرے گا، بھارت کے ڈیمز میں تکنیکی طور پر زیادہ پانی جمع کرنے کے ذرائع ہیں، جب سیلاب آتا ہے تو بھارت پانی چھوڑ سکتا ہے، ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی اور تمام حکومتیں ہی اس مجرمانہ غفلت کی ذمہ دار ہیں، لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس وقت پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے حق میں مکالمہ نہیں کررہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پانی کی قلت کیسے ختم ہوگی، ہمیں معلوم ہے کہ آئندہ وقتوں میں پانی کی اہمیت کیا ہوگی، 10 سال بعد کوئٹہ میں پینے کا پانی نہیں ہوگا اور لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی، ہمیں معلوم ہے کہ صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہے ہیں، لاکھوں گیلن گندا پانی سمندر میں جا رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے عدالت عظمیٰ کے روبرو کہا کہ پانی کی قلت پر قابو پانے کے کئی حل موجود ہیں، جس میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کا منصوبہ شامل ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ منصوبے تو کاغذ پر تھے ہم نے نوٹس لیا تو کام شروع ہوا، آپ کی حکومت تو سندھ میں دس سال سے ہے مجھے ایک ترقیاتی منصوبہ نظر نہیں آیا۔مجیب پیرزادہ ایڈوکیٹ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ پوری قوم آپ کے ساتھ ہے اچھے فیصلوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کالا باغ ڈیم کا معاملہ متنازعہ ہوچکا ہے، چاروں صوبوں کے عوام نے کالا باغ ڈیم کے خلاف بات کی ہے، پانی کے بحران اور قلت پر کسی کو اعتراض نہیں مگر کالاباغ ڈیم کا نام جہاں آتا ہے تنازع کھڑا ہوتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ وفاق کی عدالت ہے، ہم جوڑنے کیلئے بیٹھے ہیں توڑنے کیلئے نہیں، وعدہ کرتا ہوں سپریم کورٹ کوئی ایسا حکم نہیں دے گی جس سے کوئی فریق متاثر ہو، جہاں تنازع ہو اور چار بھائی متفق نہیں تو متبادل حل نکالیں، ہم آنے والی نسل کو اچھا مستقبل دے کر جائیں گے، آپ سب خطرہ محسوس نہ کریں، ہم کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کر رہے، ہم نے کل پرویز مشرف کو آنے کو کہا تو اس کا بھی سب کو خطرہ ہو رہا ہے، پرویز مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے، پرویز مشرف آئیں اور قانون کا سامنا کریں، کسی کے لیے خطرے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زندگی کے لیے سب سے زیادہ پانی کی اہمیت ہے، اگر پانی نہیں تو زندگی کہاں رہے گی، ہمیں کوئی پالیسی بنانی ہوگی، ہم چاہ رہے ہیں پانی کے مسائل پر بات ہو اور پانی بحران پر قابوپایا جاسکے۔ پانی بحران دور کرنے کے لیے ایک ماہ پہلے پنجاب حکومت کو ہدایت دی تھی لیکن ہدایت کے باوجود پنجاب حکومت نے ایک ٹکے کا کام نہیں کیا، اب توجہ نہیں دیں تو حالات کبھی نہیں سدھریں گے، ہم نے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کر لیا ہے، ہم ایک ٹیم بنا دیتے ہیں جس میں اعتزاز احسن اور دیگر ماہرین کی خدمات لیں گے۔ ملک میں قانون بنانے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے قانون بنا کر پارلیمنٹ کو سفارش کی جاسکتی ہے، قوم اختیار دے تو سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور کردار ادا کرے گی، سیمینارز کے ذریعے پہلا قدم اٹھائیں گے، عید کے بعد سپریم کورٹ کا لاء اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سیمینار کرائے گا، ماہرین تجاویز دیں بیٹھ کر ایس او پیز بنائیں گے۔ ہم کراچی اور سندھ سے اس کا آغاز کریں گے، عدالت نے سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔