سندھ
قائم علی شاہ کے آٹھ سال کیسے رہے؟
سندھ میں گذشتہ 8 سال میں کئی ایسے موقع آئے جب بات اس نہج پر پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن سید قائم علی شاہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمیشہ اس صورتحال کو مات دیکر پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کرلیتے تھے۔
2008 کے انتخابات کے بعد جب وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرانگی تھی ایسے ہی ایک معمر شخصیت کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کو کچھ حلقوں میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا تھا، لیکن اعلیٰ قیادت کے تیور دیکھ کر یہ خاموش رہے۔ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی حکومت پر صحت، تعلیم، امن و امان سمیت کئی شعبوں میں طرز حکمرانی اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوتے رہے۔
اس میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کی تباہ کاریاں، کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتلِ عام، متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی دباؤ یہ وہ چیلینجز تھے جو ان کی کرسی کو بار بار ہلاتے رہے، معاملات جب سپریم کورٹ میں پہنچے تو ان کی طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی دیگر صوبوں میں شکست کے بعد سندھ میں قیادت کی نظر کرم پھر بھی سید قائم علی شاہ پر پڑی اور انہیں دوبارہ اس منصب پر منتخب کردیا گیا، لیکن اس بار وفاق میں پیپلز پارٹی نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اس مدت سے ہی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے وسائل میں بھی اضافے ہوا لیکن اس سے طرز حکمرانی میں بہتری کے بجائے کرپشن کے شکایت سامنے آنے لگیں۔
تھر میں بچوں کی ہلاکت ہی نہیں، صحت، تعلیم اور آبپاشی سمیت خدمات کے ہر شعبے میں وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر سربراہی حکومت کی کارکردگی لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی۔ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں سندھ حکومت کی کارکردگی مجموعی طور پر کمزور رہی، مایوس کن حد تک۔ ’گذشتہ آٹھ سالوں مں ان کی کوئی کامیابی تلاش کرنا بہت مشکل ہے، صرف اتنا کہ انہوں نے کام چلایا ہے باوجود اس کے پارٹی کے اندر گروہ بندی تھی اور سندھ کا منقسم مینڈیٹ تھا۔‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے سید قائم علی شاہ اور ان کا خاندان کسی بھی سکینڈل میں ملوث نہیں ہوئے۔ جو گورننس اور میرٹ پامال ہوا اور پورا سندھ کوڑے دان میں تبدیل ہوگیا اس میں غلطی قائم علی شاہ کی تھی یا پیپلز پارٹی کی قیادت کی جنہوں نے قائم علی شاہ کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا اور نتیجے میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر سندھ پسماندگی کا شکار ہوا۔
سندھ کے روز مرہ کے جو معاملات ہیں وہ آصف زرداری کی بہن فریال ٹالپر چلاتی رہی ہیں، اس سے قبل اویس مظفر وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار سمجھے جاتے تھے، اسی طرح سابق وزیر داخلہ ذوالقفار مرزا وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار اور طاقتور نظر آتے تھے۔
کراچی میں جب ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کی گرفت شہر تک کمزور ہوئی اور جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین، فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی کی گرفتاری کے بعد بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب قدم بڑھائے اور کرپشن کے معاملات کو اٹھایا تو صوبائی حکومت نے ایک لکیر کھینچ لی اور اسے رینجرز کے اس کردار کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گمشدگی، دورانِ تحویل ہلاکتوں اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی آمد اور سیاسی جماعت کےاعلان پر ایم کیو ایم کے خدشات اور تحفظات کو سنا ان سنا کردیا لیکن باقرانی سے صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی کے دوست اسد کھرل کی گرفتاری اور حملہ آوروں کی جانب سے رہائی نے ایک نیا تنازعہ جنم دیا اور رینجرز نے اندرون سندھ آپریشن پر اپنے موقف کو اور سخت انداز میں پیش کیا۔ سید قائم علی شاہ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع پر قیادت سے مشاورت کے لیے دبئی گئے تھے، جہاں ان کی تبدیلی کا فیصلہ سامنے آیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ سمجھتے ہیں کہ جب آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو اس وقت بھی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہی تھے ابھی تو اس سے زیادہ تو صورتحال کشیدہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جو بھی ہوگا وہ موقف وہی اختیار کرے گاجو آصف علی زرداری کا ہوگا، جن بھی فریقین سے سیاسی و انتظامی معاملات طے ہوتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ نہیں بلکہ دبئی میں قیادت طے کرتی ہے۔ غیر سرکاری تتنظیم فیئر اینڈ فری الیکشن یعنی فافن کے سربراہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے مثبت تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ سندھ کی صورتحال 2008 سے ایک جیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی لائی ہی نہیں لائی گئی یقیناً جب نیا وزیر اعلیٰ آئےگا تو اس کے سامنے چیلینجز ہوں گے اور ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی کیونکہ اس اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی۔
سندھ اسمبلی کے 168 اراکین کے ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 92 نشستیں حاصل ہیں، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اس کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت حاصل ہونے کا اعزاز رہا ہے، اب ا س کی حکمرانی سکڑ کر صوبہ سندھ تک محدود رہ گئی ہے، اس صوبے کو ماڈل بنانا پیپلز پارٹی اور آنے والے وزیر اعلیٰ دونوں کے لیے ایک کٹھن امتحان ہے۔ کیونکہ یہ کارکردگی اس کو آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روکنے کا سبب بنے گی۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ماضی کا 8 سالہ تجربہ ہے چاہے وہ وفاق کا ہو، بلوچستان، کشمیر یا سندھ کا ہو اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دے گی لیکن اگر اب بھی زرداری نے نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا تو پھر پیپلز پارٹی کا مستقبل سندھ میں بھی مخدوش ہو جائے گا۔
فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ حکومت پر بہت اثرانداز ہوتی ہے لیکن وہ اس کو غلط نہیں سمجھتے کیونکہ پارٹی کا جو پروگرام ہے اس پر تو حکومت عملدرآمد کرے۔ جو اس نے حکمرانی میں بہتری، کرپشن اور غربت میں خاتمے کے لیے وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرے۔‘