جیپ والے جیتے تو ڈکٹیٹ کریں گے
کراچی : پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ الیکشن میں پنجاب سے آزاد امیدوار زیادہ کامیاب ہوں گے،جیپ کے نشان والے امیدوار بڑی تعداد میں جیت گئے تو پھر وہ ڈکٹیٹ کریں گے، انتخابا ت کے بعد کوئی سنجرانی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے، جس نے بھی حکومت بنانا ہوگی اسے ہم سے بات ضرور کرنا ہوگی، ہر حال میں حکومت نہیں چاہتے، بلاول اپوزیشن لیڈر بن بھی جائیں تو بھی قبول ہے، پیپلز پارٹی کا وزیراعظم کا امیدوار بلاول بھٹو زرداری ہے،اپنی زندگی میں بلاول کو وزیراعظم بنتے دیکھنا چاہتاہوں، عمران خان الیکشن کے بعد اتحاد کے دروازے خود بند کرچکے ہیں، میرے گائوں سے میرے بندے کی گرفتاری کسی کی ادا ہے اور ہر ادا میں ایک پیغام ہوتا ہے،انتخابات میں تاخیر کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سیاسی طاقتوں کو مل کر الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا ہوگا، دوبارہ صدر مملکت نہیں بننا چاہوں گا، اس سے بہتر ہے پارٹی کیلئے گراؤنڈ پر کام کروں، میری نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی،سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنا نہیں بنایا گیا ہے،انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بن سکتی ہے مگر لیڈرشپ پر جھگڑا ہوگا، پچیس جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔صرف اسماعیل ڈاہری پر چھاپہ ہی مسئلہ نہیں اور بھی بڑے مسئلے ہیں۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر کو خصوصی انٹرویو دے رہے تھے۔آصف زرداری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سیاسی طاقتوں کو مل کر الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا ہوگا، 2018ء کے الیکشن سوفیصد درست نہیں ہوں گے لیکن ادارے مضبوط ہوتے جائیں گے تو آنے والے الیکشن بہتر ہوں گے، پیپلز پارٹی کو اب بھی انتخابی میدان میں مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں، بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے، انقلاب پر نہیں ارتقاء پر یقین رکھتا ہوں، جمہوریت بھی وقت کے ساتھ ارتقائی مراحل طے کرے گی، انقلاب لال رنگ کا جبکہ ارتقاء کا رنگ سفید ہے، انقلاب کے ساتھ خونریزی بھی آتی ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن نے کہا کہ اسماعیل ڈاہری میرا ایک چھوٹا سا کارکن ہے مجھے نہیں پتا کیوں سترہ پولیس اور رینجرز کی گاڑیوں نے اس پر چھاپہ مارا، اس کے پاس جتنا اسلحہ نکلا سب لائسنس یافتہ ہے، میرے گاؤں سے میرے بندے کی گرفتاری کسی کی ادا ہے اورہر ادا میں ایک پیغام ہوتا ہے، صرف اسماعیل ڈاہری پر چھاپہ ہی مسئلہ نہیں اور بھی بڑے مسئلے ہیں، اگر میں نے کوئی ڈیل کی ہے تو و ہ مسائل کیوں پیدا ہورہے ہیں، ڈیل کرتا تو کوئی مجھ پر نہیں میں چھاپے لگوارہا ہوتا۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ مجھ پر تنقید کرنا عمران خان کا جمہوری حق ہے،بلوچستان سے غیرسیاسی شخصیت کو چیئرمین سینیٹ بنایا ہے، بلوچوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہئے تاکہ وہاں انڈیا کا فٹ پرنٹ کم ہو، عمران خان الیکشن کے بعد اتحاد کے دروازے خود بند کرچکے ہیں، عمران خان کہہ چکے ہیں میرے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے، شہباز شریف کا بینظیر بھٹو کو یاد کرنا سیاست ہے مگر اچھی بات ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہر جگہ آزاد امیدوار کھڑے ہورہے ہیں، الیکشن میں پنجاب سے زیادہ تر آزاد امیدوار جیتیں گے، ان میں کچھ پیپلز پارٹی، کچھ ن لیگ اور کچھ پی ٹی آئی کی بس سے اترے ہیں،جیپ کے نشان پر لڑنے والے آزاد امیدوار خود بھی جیپ پر چڑھے ہوں گے کسی نے چڑھایا بھی ہوگا مگر زیادہ تر لوگوں کا شوق اپنا ہے، میری پارٹی کے بسرا نے جیلیں کاٹیں ماریں کھائیں مگر وہ بھی آزاد الیکشن لڑرہا ہے، منظور وٹو آزاد حیثیت میں کھڑے ہونے کے بعد پیپلز پارٹی سے فارغ ہوگئے ہیں، منظور وٹو کو کسی نے کہا تمہارا آخری الیکشن ہے آزاد لڑو، اگر چیلنج کرو گے تو ہم ہرادیں گے یا تم خود ہار جاؤ گے۔ سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جیپ کے نشان والے امیدوار بڑی تعداد میں جیت گئے تو پھر وہ ڈکٹیٹ کریں گے،پچیس جولائی کے انتخابا ت کے بعد کوئی سنجرانی بھی وزیراعظم بن سکتا ہے، چاہے کچھ بھی ہوجائے ہمارے بغیر حکومت نہیں بنے گی، جس نے بھی حکومت بنانا ہوگی اسے ہم سے بات ضرور کرنا ہوگی، ہر حال میں حکومت نہیں چاہتے، بلاول کو پارلیمانی تجربہ حاصل کرنا چاہئے، بلاول اگر اپوزیشن لیڈر بھی بنا تو کوئی اعتراض نہیں ہے، اپنی زندگی میں بلاول کو وزیراعظم بنتے دیکھنا چاہتاہوں، پیپلز پارٹی کا وزیراعظم کا امیدوار بلاول بھٹو زرداری ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ن لیگ نے دھوکے دیئے اسی لئے رابطوں سے انکار کیا، ن لیگی حکومت نے ہماری گیس نہیں دی، پاور پلانٹس لگانے نہیں دیئے، ہر سال ہمارے پیسے کاٹتے رہے حتیٰ کہ سندھ کو پانی تک نہیں دیا، ن لیگ سندھ کے کسانوں کو پانی دینے کے بجائے بجلی بناتی رہی جو جرم ہے۔ شریک چیئرپرسن پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور تحریک انصاف بنائی گئی ہیں، جس نے انہیں بنایا اس کی عقل کی سمجھ نہیں آتی کہ جب بھی انہوں نے کچھ بنایا وہ ان کے گلے میں پڑا ہے، حمید گل نے ایک پارٹی بنائی جس کا سربراہ عمران خان کو بنایا، ذوالفقار علی بھٹو ٹرسٹ نے بھی بڑے نوبل کام کیے مگر ہم اس کے اشتہار نہیں چلاتے نہ چندہ لیتے ہیں، عمران خان کے اسپتال ٹرسٹ ہونے کے ساتھ منافع بھی کمارہے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی کو صدر بناسکتی ہے مگر میں دوبارہ صدر نہیں بننا چاہوں گا، دوبارہ صدر بننے سے بہتر ہے پارٹی کے ارتقاء کیلئے گراؤنڈ پر کام کروں،ملک ریاض کو میرے پاس کسی کے پیغامات لانے کی ضرورت نہیں ہے،موجودہ سیاستدانوں کے باپ دادا پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے، تمام سیاستدان پیپلز پارٹی کی نرسری میں بڑھے اور پھر دوسری جگہوں پر چلے گئے۔آصف زرداری نے کہا کہ میری نواز شریف سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، نجم سیٹھی سے ملاقات ہوئے تقریباً دس سال ہوچکے ہیں، نواز شریف سے جب سے روٹھے ہیں تب سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، آدمی جتنا بڑا ہوجاتا ہے اتنے زیادہ اس کے سرخاب کے پر نکل آتے ہیں، نواز شریف سے میری ملاقات کی جھوٹی خبریں پھیلانے کا غلط فہمیاں پیدا کرنا ہے، ملک ریاض کو میرے پاس کسی کے پیغامات لانے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے کسی نے پیغام بھیجنا ہو تو خورشید شاہ کے ذریعہ بھی بھیج سکتا ہے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے صوبے میں انفرااسٹرکچرپر بہت کام کیا ہے، انڈیا کی سرحد تک گاؤں دیہاتوں کو بجلی اور پانی پہنچادیا ہے، جتنی تعداد میں بچے تھر میں مرتے ہیں اتنے ہی لاہور کے اسپتال میں مرتے ہیں، سندھ کے اسپتال پنجاب کے اسپتالوں کے مقابلہ میں بہتر ہیں، سندھ میں چھوٹے شہروں تک کارڈیک سینٹرز ہیں جہاں مفت علاج ہورہا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بنا نہیں بنایا گیا ہے، انور مجید ہمارا بزرگ ہے جسے ہم نے پھنسا کر سندھ کی انڈسٹریز میں ڈالا ہے، انور مجید کی دلچسپی شوگر انڈسٹری میں بڑھتی گئی تو لوگوں کو تکلیف بڑھتی گئی۔ سابق صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے وزیرخارجہ نہ رکھ کر پاکستان کے ساتھ ظلم کیا، بلاول بھٹو چار سال وزیرخارجہ رکھنے کا کہتے رہے مگر ان جاہلوں نے نہیں رکھا، واشنگٹن اور دیگر دارالحکومتوں میں پاکستان کا تاثر کافی منفی ہوگیا ہے جسے تبدیل کرنا ہے، انڈیا ہمیں طالبان کا وارث ٹھہراتا ہے، نواز شریف کے دور میں پڑوسی ممالک کے علاوہ سعودی عرب،ایران اور یو اے ای جیسے دوست بھی ساتھ نہیں رہے، چین پرا تنا وزن نہ ڈالیں کہ اس کا صبر جواب دے جائے، چین کو قرضے دینے والا بینک سمجھ کر پراجیکٹ کروائے جارہے ہیں، چین کو قرضے واپس کرنے میں تاخیر ہوئی تو تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، اس سے بہتر وہ پورٹ بنائی جانی چاہئے تھی جو میں دے گیا تھا۔ آصف زرداری نے کہا کہ انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بن سکتی ہے مگر لیڈرشپ پر جھگڑا ہوگا، وزیراعظم کا کردار سنجرانی صاحب سے مختلف ہے، پچیس جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، اس وقت ہر کوئی پاور میں آنا چاہ رہا ہے اور پاور پالیٹکس ہمیشہ خطرناک ہوتی ہے، ایک خاندان کسی صورت پاور چھوڑنا نہیں چاہتا ہے، میں نے اٹھارہویں ترمیم میں خود اختیارات دیئے مگر یہ پاور نہیں چھوڑ رہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن نے پارٹی کے ووٹرز کیلئے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت ایک نایاب چیز ہے اس کی قدر کریں،پاکستان اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے پاکستانیوں کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔