بناؤ، استعمال کرو، پھینک دو
وہ تمام سیاستداں اور ارکانِ اسمبلی جو عزیر بلوچ کو سردار صاحب کہتے تھے ، زندگی بھر وفادار رہنے کا حلف اٹھا چکے یا مرغن دعوتوں کا نمک چکھ چکے ہیں، وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کون عزیر بلوچ؟
ارے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔وہ کوئی اور اویس مظفر ٹپی ہوگا ۔ فریال نام کی تو سینکڑوں خواتین ہیں اکیلا میرا نام فریال تھوڑا ہے ۔نہیں نہیں قائم علی شاہ کو اتنی فرصت کہاں کہ عزیر جیسا جرائم پیشہ ان سے مل سکے۔ آج کل تو کوئی بھی انگلا کنگلا سستی شہرت کے لیے فوٹو شاپ کر سکتا ہے۔آپ کہیں تو میں عزیر بلوچ کو اوباما کے ساتھ دکھا دوں۔
ہم سیاسی لوگ ہیں ہمارا بھلا کسی گینگسٹر سے کیا لینا دینا۔ اگر پیپلز امن کمیٹی ہم نے بنائی ہوتی تو ہم ہی اسے کیوں کالعدم قرار دیتے؟ ذوالفقار مرزا آج بھی عزیر بلوچ کو بھائی کہتا ہے تو کہتا رہے۔ مرزا سے پوچھیں کہ بطور وزیرِِ داخلہ اس نے اسلحے کے ہزاروں لائسنس کیوں جاری کیے۔ انہی حرکتوں پر تو مرزا کو پیپلز پارٹی سے نکالا گیا۔
وہ تمام باضمیر صحافی جو عزیر بلوچ کی دعوتِ افطار میں شرکت کے لیے ٹوٹے پڑتے تھے، وہ تمام اینکرز اور اینکرنیاں جو عزیر جان کو ٹاک شوز میں مدعو کرتے تھے آج طوطے کی طرح اس کی سفاکیوں کا پردہ فاش کر رہے ہیں۔
پیپلز امن کمیٹی دو ہزار آٹھ میں زرداری حکومت کے قیام کے بعد رحمان ڈکیت عرف سردار رحمان خان بلوچ کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ جب رحمان ڈکیت نے سیاسی پر پرزے نکالنے شروع کیے تو نو اگست دو ہزار نو کو سٹیل ٹاؤن کے قریب پولیس مقابلے میں تین ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا۔
عجب صاف ستھرا پولیس مقابلہ تھا جس میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مرنے والوں کو تین فٹ دور سے گولیاں لگیں اور کوئی سپاہی زخمی نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بشمول نبیل گبول ایم این اے نے بدنامِ زمانہ رحمان ڈکیت کے صفائے کا خیر مقدم کیا کیونکہ رحمان ڈکیت نبیل گبول کی الیکشن کمپین کا کبھی انچارج نہیں رہا۔ نبیل نے کبھی رحمان کا گھر تک نہیں دیکھا ۔اس گھر میں پریس کانفرنس کرنا تو دور کی بات ہے۔یہ رحمان ڈکیت دادل ( داد محمد ) کا بیٹا اور شیرو ( شیر محمد ) کا بھتیجا تھا۔شیرو دادل کی جوڑی ایوب خان کے مخالفین کے جلسے اکھاڑنے کے لیے مشہور تھی۔اس وقت لیاری ہارونوں اور گبولوں کی جاگیر تھا۔ پھر بھٹوؤں کا سیاسی فارم ہاؤس بنا۔گینکسٹرز نسل در نسل بدلتے رہے اور ان کی پیٹھ پر دھرے ہاتھ بھی۔
پچھلے دس برس میں گینگسٹرز نے ہی لیاری سنبھال لیا۔ ان گینگسٹرز نے یقینی بنایا کہ بلوچستان کا کوئی پاکستان دشمن لیاری کے گنجان انسانی جنگل میں پناہ نہ لینے پائے۔اس کے بدلے یہ گینگسٹرز لیاری کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے۔اور پھر دس مربع کلومیٹر میں پھیلے کراچی کے سب سے گنجان لیاری ٹاؤن میں دو ہزار کے لگ بھگ لوگ مرگئے۔
کراچی کی سیاست میں جرائم پیشہ مافیا کی جو کہانی انیس سو ساٹھ میں کالا ناگ اور شیرو دادل سے شروع
ہوئی ۔آج اس کہانی کی تیسری پیڑھی چل رہی ہے۔لیاری کی غربت اور اس سے پیدا ہونے والے گینگسٹرز کل تک سیاسی اثاثہ تھے آج اسٹرٹیجک اثاثہ بھی ہیں۔ بے قابو ہوجائیں تو پھر سے نالی کا کیڑا بنا دئیے جائیں۔
عزیر بلوچ کی ماں نے کیا خوب کہا کہ ہماری زندگیاں بس اسی لیے ہیں کہ بناؤ، استعمال کرو، ختم کردو۔ تراشیدم ، پرستم ، شکستم کی اس سے بہتر تفسیر کیا ہوگی ؟
آخری خبر یہ آئی تھی عزیر بلوچ دبئی پولیس کی تحویل میں ہے۔ جانے کب رہا ہوا اور پھر پاکستان کیسے اور کیوں آ گیا؟ بیٹی کہتی ہے انٹرپول والے میرے سامنے دبئی ایئرپورٹ سے تیرہ ماہ پہلے اٹھا کے لے گئے۔ حکومتی ادارے کہتے ہیں انٹرپول کے ریڈ وارنٹ جاری ضرور ہوئے تھے مگر گرفتاری دو روز پہلے کراچی کے مضافات سے ہی ہوئی۔ اتفاق سے کوئی فوٹو گرافر بھی وہیں کہیں ٹہل رہا تھا جس نے پرسکون صاف ستھرے عزیر بلوچ کی ڈرامائی گرفتاری اطمینان سے عکس بند کی۔
مگر کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔آنے والے دنوں میں عزیر بلوچ مزید راز اگلے گا، بہت سے نام لے گا، ہو سکتا ہے سلطانی گواہ بھی ہو جائے اور جب ایک روز اس کا سینہ رازوں سے خالی ہو جائے گا تو پھر اس کا دل اکتا جائے گا اور ایک دن وہ فرار ہونے کی کوشش کرے گا اور اس کوشش میں مر جائے گا اور پھر کسی نئے عزیر بلوچ کی نئی فائل نئے کام کے لیے کھل جائے گی۔
ایل کپون ، حاجی مستان ، بھنڈرانوالہ ، ملک اسحاق ، رحمان ڈکیت ، عزیر بلوچ وغیرہ وغیرہ ۔ایسے سب مہرے انتہائی ضروری اور پھر غیر ضروری ہیں۔