سندھ

’استخارہ کروایا؟‘ کمیشن کا سوال

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کارکنوں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور تنظیم کے سربراہ الطاف حسین کی تصویر اور تقریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف جمعرات کو علامتی بھوک ہڑتال کی گئی، جس میں متاثرہ خاندانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔

کراچی پریس کلب کے باہر اس علامتی بھوک ہڑتال کا انتظام کیا گیا تھا، جس میں ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل، اظہار الحسن اور دیگر بھی شریک تھے۔

کے ایم سی کے لاپتہ کارکن نعیم کی اہلیہ شبنم نعیم اپنے شوہر کی تصویر دونوں ہاتھوں میں تھامے اس مجمع میں موجود تھیں اور ساتھ میں ان کی چھ سالہ بیٹی نعرے لگانے والوں اور تقریر کرنے والوں کو سنتی رہیں۔

نم آنکھیں لیے شبنم کا کہنا تھا کہ اب وہ نہ جینے میں ہیں نہ مرنے میں۔ ان کے پانچ بچے ہیں وہ بہت پریشان ہیں کیونکہ اب وہ ان بچوں کو سنبھال نہیں پا رہی ہیں، ان کی چھوٹی چھوٹی فرمائشوں پر بھی وہ انہیں مارپیٹ کرنے لگی ہیں کیونکہ وہ انہیں پورا نہیں کرسکتیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شوہر کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے پاؤں پتھر ہوچکے ہیں، انھوں نے عدالت میں درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، جہاں ’سماعت پر ایجنسیوں کے لوگ آکر کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی علم نہیں ہے حالانکہ جب نعیم کو 7 اکتوبر 2013 کو گرفتار کیا گیا تھا تو دوسرے روز رینجرز کا یہ بیان سامنے آیا تھے کہ پی آئی بی سے تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن اب وہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

لاپتہ محمد علی کی بیگم افیشن نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے شرکا کو اپنے شوہر کی گمشدگی کی تفصیلات بیان کیں اور بتایا کہ ان کے شوہر محمد علی کو 3 سال قبل سفید ڈبل کیبن میں سوار اہلکاروں نے سینٹرل جیل کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ حکومت کی جانب سے لاپتہ افراد کے بارے میں بنائے گئے کمیشن میں پیش ہوئے تھے، جہاں جسٹس ریٹائرڈ غوث محمد نے پوچھا کہ آپ نے ہپستالوں، جیل اور ایدھی ہوم سے معلوم کرلیا ہم نے بتایا کہ سب جگہ معلوم کرچکے ہیں۔

’جسٹس غوث محمد نے کہا کہ آپ نے استخارہ کرایا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں کرایا ہے، انھوں نے پوچھا کہ اس میں کیا آیا ہے، میں نے بتایا کہ وہ زندہ ہیں تو انھوں نے کہا کہ دعا کریں میں بھی صرف دعا کرسکتا ہوں۔‘

میں نے کہا کہ آپ اتنی بڑی سیٹ پر بیٹھیں ہیں کچھ تو کریں۔ جسٹس غوث محمد بہت کم بات کرنے دیتے ہیں انھوں نے ہماری نہیں سنی اس کے بعد یہ کمیشن کراچی نہیں آیا۔‘

ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں ان کے 60 کارکنوں کی ماورائے عدالت ہلاکت ہوئی ہے جبکہ تقریبا پانچ ہزار کے قریب گرفتار کیے گئے، جن میں سے ایک ہزار کے قریب کو جیل بھیجا گیا اور 134 کے قریب کارکن تاحال لاپتہ ہیں۔ ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا ہے کہ آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کیا گیا ہے اور پاک سرزمین پارٹی کی سرپرستی کی جارہی ہے۔

سینیٹر نسرین جلیل کا کہنا تھا ’ کئی کارکن جو لاپتہ تھے انہیں پاک سرزمین پارٹی کے دفتر سے بازیاب دکھایا جارہا ہے، یعنی ہزاروں الزام لگا کر گرفتار کیا اور بعد میں غائب کردیا گیا اب وہ پاک سرزمین پارٹی کے دفتر سے نکل کر آرہے ہیں تو کیا انہیں وہاں ڈرائی کلین کردیا کہ اب آپ پر کوئی الزام نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ رینجرز جو ماورائے آئین اور قانون کام کر رہی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔‘

واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے سیکریٹری آفتاب احمد کی رینجرز کی زیر حراست ہلاکت ہوگئی تھی، فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کا حکم جاری کیا تھا، ایم کیو ایم کا کہنا ہے اس تحقیقات کا نتیجہ بھی تاحال سامنے نہیں لایا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close