سزا یافتہ افسر کی سندھ ہائی کورٹ میں درخواست
ایڈووکیٹ حق نواز ٹالپور کی معرفت میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہشام نصیر نے 2008 میں نیول اکیڈمی سے تربیت مکمل کی، جہاں ان کو لیفٹننٹ کا رینک دیا گیا، ان کی آخری تعیناتی پی این ایس حیدر کراچی پر تھی۔
خیال رہے کہ شدت پسندوں نے کراچی میں پاکستان بحریہ کے ڈاک یارڈ پر یہ حملہ چھ ستمبر 2014 کو کیا تھا جس میں نیوی کا ایک اہلکار اور تین حملہ آور ہلاک ہو گئے تھے جبکہ نیوی کے ایک افسر سمیت چھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پی این ایس ذوالفقار واقعے کے بعد مدعی کو ممکنہ طور پر اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا اور انھیں نیول حکام نے غیر قانونی طور پر 11 ماہ تک زیر حراست رکھا اس دوران رشتے داروں کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ مدعی کو اس بات کا بھی موقع فراہم نہیں کیا گیا کہ وہ قانونی مدد لے سکیں، اس غیر قانونی حراست کے دوران ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا گیا کہ ’وہ کورے کاغذات پر انگوٹھا لگائیں‘ اور یہ بھی دباؤ ڈالا گیا کہ ’اس واقعے کے دیگر ملزمان کے خلاف گواہی دیں۔
11 ماہ گزرنے کے بعد لیفٹننٹ کموڈور عمران الحق نے مدعی کو بتایا کہ ان کا ٹرائل جنرل کورٹ مارشل میں ہوگا وہ اپنے دفاع کے لیے ایک افسر کا انتخاب کریں جس پر انھوں نے کموڈور بلال عبداللہ کا نام تجویز کیا لیکن حکام نے اس کو قبول نہیں کیا اور مدعی پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس غیر قانونی پروفارما پر دستخط کریں جس میں یہ تحریر تھا کہ نیوی مدعی کو اپنی مرضی سے کوئی بھی افسر دے سکتی۔
درخواست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مدعی کو دانستہ طور پر اندھیرے میں رکھا گیا کہ وہ سویلین ایڈوکیٹ کی بھی خدمات حاصل کرسکتا ہے، اور دانستہ طور پر نااہل وکیل دیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی این ایس کارساز اور پی این ایس قاسم پر جنرل کورٹ مارشل کیا گیا اور انہیں 13 اکتوبر 2015 کو سزائے موت سنا دی گئی اور سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
جج ایڈووکیٹ جنرل نیول ہیڈکوراٹر اسلام آباد کو بذریعہ جیل حکام اپیل پہنچی کہ اس مقدمے سے متعلق تمام کاغذات اور فیصلے کی نقول فراہم کی جائیں، جس کے جواب میں انہیں نوٹیفیکیشن کے ذریعے یہ آگاہ کیا گیا کہ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کے اختیارات پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ دستاویزات فراہم نہیں کی جاسکتی اور یہ دستاویز دینا ریاست کے مفادات کے بھی خلاف ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ کورٹ مارشل کی دستاویز مانگنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں بلکہ ان دستاویزات کی عدم فراہمی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ورزی بھی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان دستاویزات کی فراہمی شفاف اور غیر جانبدار انصاف کی فراہمی کے لیے بھی لازمی ہے۔
درخواست گزار کو ایک خط موصول ہوا ہے کہ اپیل کی سماعت کے لیے عدالت تشکیل دے دی گی جس میں 27 اکست 2016 کو سماعت ہوگی لیکن مدعی کو دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے۔
درخواست میں نیول آرڈیننس 1961 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو کورٹ مارشل کے بغیر 90 روز سے زیادہ حراست میں نہیں رکھا جاسکتا، اس کے برعکس مدعی کو ایک سال تک زیر حراست رکھا گیا، جس سے حکام کی بدنیتی کا اندازہ ہوتا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ نیول آرڈیننس کی شق 47 میں کہا گیا ہے کہ زیر تفتیش شخص اپنی مرضی سے وکیل کا انتخاب کرسکتا ہے، مدعی کو اس حق سے محروم رکھا گیا، نیول آرڈیننس یہ بھی حق دیتا ہے کہ ملزم کو مقدمے کی سماعت سے 24 گھنٹے قبل چارج شیٹ اور شواہد اور ثبوت فراہم کیے جائیں گے جو اس مقدمے میں فراہم نہیں کیے گئے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مدعی کو کورٹ مارشل کی کارروائی کی دستاویزات اور شواہد فراہم کیے جائیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں، عدالت نے درخواست پر محکمہ دفاع، نیوی اور دیگر متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔
ابھی عدالت نے اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ اس درخواست کی سماعت ان کے دائرہ اختیار میں ہے کہ نہیں۔