منی لانڈرنگ کیس: ہر ریکارڈ جے آئی ٹی کو ملنے تک کراچی میں بیٹھا ہوں، چیف جسٹس
کراچی: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے منی لانڈرنگ کیس میں کہا ہےکہ جب تک ایک، ایک ریکارڈ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو نہیں مل جاتا وہ کراچی میں ہی قیام کریں گے۔
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ احسان صادق دیگر اراکین کے ہمراہ پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر محکموں کے عدم تعاون اور ریکارڈ وقت پر فراہم نہ کرنے سے متعلق سابقہ آرڈر پڑھ کر سنایا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیف سیکریٹری سندھ کہاں ہیں، ان سے متعلق عدم تعاون کی شکایت ہے۔
چیف سیکریٹری سندھ نے بتایا کہ ہم نے جے آئی ٹی کو تمام ریکارڈ دے دیا ہے۔
چیف جسٹس نے جے آئی ٹی سربراہ سے پوچھا کہ کیا تمام دستاویزات مل گئے ہیں؟
احسان صادق نے جواب دیا کہ جی مل گئے ہیں مگر اسکروٹنی کرنی ہے، جبکہ عدالت کے شکر گزار ہیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو کہیں وہ عدم تعاون کی شکایت پر مجھ سے چیمبر میں آکر ملیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک ایک، ایک ریکارڈ جے آئی ٹی کو نہیں مل جاتا کراچی میں بیٹھا ہوں، جعلی اکاؤنٹس سے متعلق پچھلے تین، چار روز سے کام کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اومنی 23 ارب روپے کے واجبات ہیں، یہ 23 ارب بینک کھا گیا یا اومنی، سندھ بینک اس لیے تو مرجر کرنے جارہے تھے کہ پتہ ہی نہ چلے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گودام اور بینک کا ریکارڈ بھی چیک کیا جائے جبکہ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اومنی سے جواب لے لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے دستاویزات نہ دینے کی شکایت کی گئی تھی، اب تمام سیکریٹریز نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، جے آئی ٹی سے یہ تعاون جاری رکھا جائے، جبکہ جو عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔
عدالت نے جے آئی ٹی کو 70 ارب روپے کے قرضوں کی مکمل تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ملوث ملزمان کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جو ریکارڈ مانگا جائے گا ہم دے دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد سے کراچی آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے اس لیے تعاون رہے تو مہربانی ہو گی۔
بعد ازاں عدالت کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ سندھ شہر میں موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ کو کل عدالت میں آنے کی ہدایت کر دی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔
حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔
ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔
ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔
ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔
جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔
تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔
جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔
بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔