سندھ

مسلم منصفین نے اہانتِ رسول کی مجرمہ کی برات کا فیصلہ کرکے دل دکھی کردیئے ہیں، مفتی منیب الرحمٰن

کراچی: صدر تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ ایسے عالم میں کہ یورپین یونین کی عدالت کے مسیحی ججوں نے فیصلہ دیا، اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں توہینِ رسالت کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتِ عظمٰی کے مسلم منصفین نے ٹیکنیکل گرانڈ زپر اہانتِ رسول کی مجرمہ کی برات کا فیصلے کرکے مسلمانانِ پاکستان کے دل دکھی کردیئے ہیں اور ان کے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے، یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ پاکستان پہلے ہی اقتصادی بدحالی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے، ملک کے لئے اس اعتقادی جھٹکے کا برداشت کرنا بہت مشکل ہے، یہ فیصلہ ملک کی وحدت کو کمزور کرنے کا باعث بنے گا، اس تاریخی المیہ پر پرامن احتجاج اسلامیانِ پاکستان اور اہلسنت و جماعت کا آئینی و قانونی حق ہے، بلکہ ان کے ایمان کا تقاضا ہے۔

منیب الرحمٰن نے کہا کہ ہم اپیل کرتے ہیں کہ تمام طبقات اس پر امن احتجاج میں شریک ہوں، کاروبار کو موقوف کریں اور محبتِ مصطفٰی ﷺ کا پرچم بلند کریں، تمام علمائے کرام اور خطبائے عظام اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور حسبِ توفیق پرامن احتجاج میں شریک ہوں، ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی متنبہ کرتے ہیں کہ پر امن احتجاج کرنے والوں پر تشدد سے گریز کریں، ورنہ خدانخواستہ کسی غیر محتاط اقدام کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان ہوا، تو پھر اس کے نتائج اور مضمرات انتہائی خطرناک ہوں گے، جن کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حیرت ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتیں منظر سے غائب ہیں اور ان کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا، شاید ان کی نظر میں کرپشن، پاناما اور سیاست کے معاملات ناموسِ رسالت سے زیادہ مقدس ہوں گے، ہمیں عدالتِ عظمی کی اس آبزرویشن پر بھی حیرت ہوئی کہ ایف آئی آر پانچ دن بعد درج ہوئی، حالانکہ فیصلے میں آگے چل کر لکھا ہے کہ اس کی کمی دور ہوگئی، کیونکہ سپرنڈنٹ پولیس نے اس کی تحقیق کو فائنل کیا، رہا یہ سوال کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 156-A کے تحت 295-C کی ایف آئی آر درج کرنے کے لئے ایس پی کی سطح کے پولیس افسر کی تحقیقات ضروری ہے، پاکستان میں ایک عام دیہاتی کے لئے ایس ایچ او تک رسائی ناقابلِ تصور ہے، چہ جائیکہ سپرنڈنٹ پولیس تک رسائی مل جائے۔

منیب الرحمٰن نے کہا کہ اس دفعہ کا جنرل پرویز مشرف نے سیکشن 295-C کے حوالے سے امتیازی طور پر اضافہ ہی اس لئے کیا تھا تاکہ ایف آئی آر کا اندراج عملا ممکن ہی نہ رہے اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے پٹیشن کے اندراج کے لئے گیارہ روز کی تاخیر کو نظرانداز کردیا اور کہا کہ چونکہ یہ سزائے موت کی کوٹھڑی میں تھی، اس لئے اس کے حق میں تاخیر سے صرفِ نظر کردیا جائے، یعنی ضابطے کو معطل کردیا جائے، تو کیا ٹیکنیکل بنیاد پر ناموسِ رسالت ﷺ کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا تھا!، کیا ایسی نرمی قتل کے ہر مجرم کے ساتھ کی جاتی ہے، اگر ہے تو عدالتی نظائر پیش کی جائیں، خلافِ معمول ضابطے کو معطل کرکے رعایت دینے کی وجہ ہی سے عوامی خدشات کو تقویت ملی کہ اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں عالمی دبا موجود ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close