محکمہ اینٹی کرپشن کا مصطفیٰ کمال سمیت 26 افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ
کراچی: محکمہ اینٹی کرپشن نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اور واٹر بورڈ کے 6 افسران سمیت 26 افسران کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ایم کیو ایم کے دور میں مصطفیٰ کمال نے محمود آباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی 50 ایکٹر اراضی چائنہ کٹنگ کرکے فروخت کردی تھی، سپریم کورٹ کے حکم پر اینٹی کرپشن نے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی زمین کی انکوائری رواں برس جنوری میں شروع کی تھی۔
دستاویزات کے مطابق ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ضمیر عباسی کی جانب سے چیف سیکرٹری کی سربراہی میں قائم کمیٹی اے سی سی ون کو 5 صفحات پر مبنی ایک مکتوب ارسال کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال سمیت واٹر بورڈ کے 6 افسران، کے ایم سی کے 12 افسران اور ریونیو بورڈ کے افسران پر مقدمات قائم کریں۔
یاد رہے کہ 2008ء میں واٹر بورڈ نے محمود آباد میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ شروع کیا تھا، جو تقریباً 82 ایکٹر اراضی پر مشتمل تھا جس کی مجموعی لاگت اس دور میں 5 ارب روپے رکھی گئی تھی، جس میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے واٹر بورڈ کے افسران کے ساتھ مل کر ایک ارب 73 لاکھ 30 ہزار روپے ہڑپ کرلئے تھے۔
اس پروجیکٹ کو ٹی پی ٹو یعنی ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹو کا نام دیا گیا تھا، اس کے اندر آنے والے زمین کا اکثر حصہ پروجیکٹ کے اطراف میں تھا، جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی نظریں اس زمین پر اس لئے تھیں کہ محمود آباد میں کیوں کہ پنجابی، ہزارے والا اور سندھی کمیونٹی کے لوگ زیادہ آباد ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے کارکنان یہاں نہیں تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے اس پروجیکٹ کے ذریعے اپنے لوگوں کی انٹری اس علاقے میں ڈالنے کے لئے یہاں چائنہ کٹنگ کرا دی تھی۔
اس چائنہ کٹنگ میں ایم کیو ایم کے سابق رہنما اور موجودہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال، کے ایم سی کے ڈائریکٹر لینڈ نجم الزمان، کے ایم سی کے ڈائریکٹر سیف عباس، کے ایم سی اینٹی انکروچمنٹ کے ڈائریکٹر عبدالمالک، کے ایم سی کے ڈائریکٹر ایڈمن شمس الدین، کے ایم سی کے ڈائریکٹر طارق نصیر، کے ایم سی کے ڈی ڈی او ندیم خان، ڈپٹی ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ محمد ندیم، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے سابق افسر منظور برنی، کے ایم سی کے محسن انصاری، سید عادل علی، آل احمد نقوی، بدرالدین، طاہر نصیر، زبیر خان، سب رجسٹرار ذوالفقار علی، رجسٹرار سکندر علی قریشی، سب رجسٹرار منیر علی عباسی، سب رجسٹرار ضمیر حسین، زبیر احمد جاکھرانی، طفیل احمد، ڈائریکٹر لینڈ واٹر بورڈ لالہ فضل الرحمن، واٹر بورڈ کے چیف انجینئر سید اظہر عباس زیدی، واٹر بورڈ کے سابق چیف انجینئر الیکٹریکل اینڈ مکینکل مشتاق میمن، واٹر بورڈ کے سپرنڈنڈنٹ انجینئر قیصر علی، ایگزیگٹیو انجینئر جگدیش کمار شامل رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے اینٹی کرپشن کو انکوائری کرنے کی ہدایت دی جس کے بعد محکمہ انسداد رشوت ستانی کی جانب سے انکوائری نمبر 166 شروع کی گئی، جس میں ان افسران کے نام سامنے آئے تھے، انکوائری کے مطابق واٹر بورڈ اور کے ایم سی کے 25 افسران نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے محمود آباد واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اربوں روپے کی سرکاری اراضی ایم کیو ایم کے کارکنان کو الاٹ کی ہے، اس قبضہ شدہ زمین کا کل تخمینہ 9 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اسی کیس میں مصطفیٰ کمال کو عدالت بلایا بھی تھا اور انہیں سوالنامہ دیا تھا جس کے بعد واٹر بورڈ، کے ایم سی اور ریویو بورڈ کے افسران کی اسٹیمنٹ بھی لی گئی تھیں، اب مقدمہ درج کرنے کے بعد ان کو باقاعدہ گرفتار کیا جائے گا۔