سپریم کورٹ نے رہائشی اور کاروباری مقامات پر تجاوزات گرانے سے روک دیا
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ رہائشی اور کاروباری مقامات پر موجود تجاوزات کو فی الحال نہ گرایا جائے اور کل صبح تک میئر کراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت اس حوالے سے پلان بنا کر عدالت میں پیش کریں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کراچی میں تجاوزات اور 35 ہزار رفاہی پلاٹوں پر قبضے کے معاملے پر سندھ حکومت کی نظرثانی درخواست، سابق ناظم نعمت اللہ خان کی درخواست سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے رہائشی اور کاروباری مقامات پر موجود تجاوزات کو فی الحال نہ گرانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ کل صبح تک میئر کراچی، وفاقی اور صوبائی حکومت اس حوالے سے پلان بنا کر عدالت میں پیش کریں۔
عدالت نے وزراء، مشیروں اور مئیر کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کے لوگوں کی تجاوزات ہیں تو پہلے انہیں ختم کرایا جائے گا۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ قومی عجائب گھر کی عمارت کو نہ گرایا جائے نئی تعمیرات ختم کریں۔
اس سے قبل سندھ حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین پیش ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے نظر ثانی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا، مگر صوبائی حکومت کو پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دوکاندار کی دوکان گئی، جس سے اس کا روزگار چلا گیا، آپریشن کو بہتر انداز سے کیا جا سکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا ایریا خالی کرا لیا گیا؟
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا مکمل ایریا خالی کرا لیا گیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے آپریشن سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، عدالت نے ایمپریس مارکیٹ اور ملحقہ علاقوں کے لیے حکم دیا تھا، سندھ حکومت متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کہا تھا کہ پورے کراچی کے لیے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل علاقہ بنایا جائے، تجاوزات تو ہٹ گئیں اب متبادل جگہ کا ایشو آئے گا۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ اگر پہلے حکم پر عمل درآمد ہوگیا تو اب سندھ حکومت بتائے کہ تجاوزات والوں کو کیا دیں گے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلا حکم یہ تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کی تجاوازت کا خاتمہ کریں، اب سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فرض پورا کرے، متبادل جگہ دینی ہے تو سندھ حکومت دے، ہم نے کب منع کیا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تجاوزات کے خاتمے کے لیے 2 احکامات دیے جاچکے ہیں، تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے 26 اکتوبر کا آردڑ موجود ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف سے بھی تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا اور 27 اکتوبر کو مئیر کراچی کو حکم دیا گیا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے اندر باہر اور اطراف سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مئیر کراچی وسیم اختر کہاں ہیں، جس پر شہری حکومت کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ وہ راستے میں ہیں، ٹریفک جام ہے۔
چیف جسٹس نے میئر کراچی کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اتنے لوگ آ سکتے ہیں تو مئیر کراچی وقت پر کیوں نہیں آسکتے، مجھے نہیں معلوم، وسیم اختر کو کہیں، عدالت پہنچیں، یہاں تمام معاملات وسیم اختر سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ غائب ہیں، بعد ازاں عدالت نے وسیم اختر کو فوری طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میئر کراچی نے خود بتایا کہ رضاکارانہ طور پر خود ایمپریس مارکیٹ کی تجاوزات ختم کررہے ہیں، ہم نے اس وقت حکم نہیں دیا تھا، یہ کام میئر نے خود شروع کیا تھا، فٹ پاتھ اور سڑکیں کلیئر کرانے کا حکم واضح تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم امن و امان کی صورتحال کے لیے اس وقت بھی فکر مند تھے، ہم نے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل بنانے کے لیے کہا تھا، ہم چاہتے ہیں سڑک پر چلنے والوں کو بھی حق ملے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے کراچی میں امن و امان کی صورت حال کیسے خراب کردی؟ ہمارا کیا تعلق؟ بحالی اور متبادل جگہ دینا حکومت کا کام ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ مگر فٹ پاتھ اور سڑکیں کلئیر کرانا بھی میئر کی ذمہ داری ہے۔
اس موقع پر میئر کراچی وسیم اختر عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ ایمپریس مارکیٹ اور اطراف میں تجاوزات ختم کرادی ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایمپریس مارکیٹ کے حوالے سے مئیر کراچی نے خود کہا تھا کہ پہلے یہاں سے تجاوزات ختم کرائیں گے، فٹ پاتھ پر لوگ کیسے چلیں گے اگر وہاں ٹھیلے ہوں گے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ وہ بچہ جو اپنے والد کے ساتھ فٹ پاتھ پر پیدل چلنا چاہتا ہے اس کے لیے تجاوزات کا خاتمہ ہونا چاہیے، متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ پارکس پر عمارتیں بن چکی ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تجاوزات کا خاتمہ مئیر کراچی کا کام ہے، جسٹس گلزار نے بھی تجاوزات کے حوالے سے حکم دیا تھا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 14 دسمبر کو بھی آرڈر جاری کیا تھا، کشمیر روڈ سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا، جہاں مختلف تجاوزات قائم کردی گئی تھیں، اس حوالے سے 2 ماہ میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا، جس میں رفاہی پلاٹس، کھیلوں کے میدان سرکاری اراضی واگزر کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس موقع پر میئر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ اس حکم پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 35 ہزار پلاٹس پر قبضے سے متعلق کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے ڈائریکٹر نے رپورٹ جمع کرادی تھی، عدالت نے ڈائریکٹر کے ڈی اے کو ابتدائی رپورٹ 2 ماہ میں دینے کا حکم دیا تھا، اس پر تاحال عمل درآمد نہیں ہوا، ان میں زیادہ تر گھر ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت نے ان افراد سے سرکاری رہائش گاہیں خالی کروائیں جو مر گئے ہیں یا ریٹائر ہوگئے ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی مفادات آگے آگئے ہیں، اب اگر یہ کام روکا تو کل یہی لوگ ایمپریس مارکیٹ میں دوبارہ آجائیں گے، کیا اس طرح آپ فلاحی اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں؟
صوبائی حکومت نے آپریشن روکنے کی استدعا کی ہے، وسیم اختر
بعد ازاں سپریم کورٹ کے باہر مئیر کراچی وسیم اختر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے ایمپریس مارکیٹ، صدر اوردیگر علاقوں سے تجاوزات ختم کیں اور سہراب گوٹھ پر تجاوزات ختم کرنے کا کام جاری ہے’۔
انہوں نے بتایا کہ نالوں سے قبضہ ختم کروایا جارہا ہے اور صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ آپریشن کو روک دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا مینڈیٹ گھر توڑنے کا نہیں پارک کو بحال کرنا ہے اور نالوں سے تجاوزات ختم کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی شہر سے گھروں پر تجاوزات ختم نہیں کی جائیں گی جبکہ کے ایم سی کے خلاف غلط تاثر دیا جارہا ہے۔
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنی مہم کو جاری رکھیں گے، جو قبضہ مافیا کے خلاف ہے’۔
انہوں نے کہا کہ کل سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کو کہا ہے کہ مل بیٹھ کر ہمیں معاملات سے آگاہ کیا جائے، متبادل جگہ فراہم کرنا سندھ حکومت کا کام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باغ ابن قاسم، نہر خیام، نالہ اور پارک پر تجاوزات ہیں، وہ ہٹائی جائیں گی، ماضی میں جو مارکیٹس کے ایم سی کی جانب سے بنائی گئی تھیں، وہ سب ختم ہوں گی۔
خیال رہے کہ 27 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی سے 15 روز میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس حکم کے بعد شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف بڑا آپریشن شروع کیا گیا تھا اور پہلے مرحلے میں صدر کو صاف کیا گیا تھا اور مشہور ایمپریس مارکیٹس کے اطراف غیر قانونی طور پر قائم ہزاروں دکانیں مسمار کردی گئی تھیں۔
صدر کے بعد آپریشن کا رخ دیگر علاقوں میں کیا گیا اور لائٹ ہاؤس، آرام باغ اور اطراف کے علاقوں سے تجاوزات ختم کردی گئیں جبکہ تاحال شہر میں آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ 17 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں ریلوے کی زمین سے قبضہ چھڑوا کر فوری طور پر کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا تھا۔
علاوہ ازیں 24 نومبر کو سپریم کورٹ نے کراچی میں پرانی جھیلیں اور پارکوں کو بحال کرانے کے ساتھ ساتھ تجاوزات کے خلاف بلاتعطل کارروائی جاری رکھنے کا بھی حکم دیا تھا۔