کندھ کوٹ: جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم قومی امانت ہے جس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا آئینی غداری ہے، اس بارے میں غور تو کیا جاسکتا ہے کہ کہاں سقم ہے اور کس شق پر اعتراض ہو اسکی نشاندہی کی جا سکے، صوبائی خودمختاری واپس لینا 18ویں ترمیم کو چھیڑ چھاڑ کرنا یہ کسی جمہوری کارکن کیلئے قبول نہیں، ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قرضے زیادہ ہوگئے ہیں، غریبوں کے مکانات گرائے گئے، لوگ غربت کی خط سے نیچے آگئے ہیں، دس لاکھ مزید افراد بیروزگار ہوگئے ہیں کیا یہ تبدیلی ہے، ہم مہنگائی کیخلاف میدان میں نکلے ہوئے ہیں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پی ایس 5 کندھ کوٹ میں ایم ایم اے کے گذشتہ انتخابات میں امیدوار حاجی ربنواز چاچڑ کی دعوت پر گاؤں میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری، جے یو آئی سندھ کے رہنماء مولانا خالد ناصر محمود سومرو، مقامی رہنماء مولانا شمس الدین بھیری، مولانا حبیب اللہ میمن، جمال الدین اوگاہی، مولانا عبدالرزاق آزاد، مولانا محمد ابراہیم خاکی و دیگر موجود تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پشاور میٹرو اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف عدالتوں نے کیوں اسٹے دیا ہوا ہے، ایک شخص کو نشانہ بناکر یہ صرف سیاسی مخالفین کو جام کرنے، گھروں تک محدود کرنے، جیلوں میں ڈالنے اور سیاسی مخالفین کیخلاف کیس بناکر عوام کو گمراہ کرنے کی پالیسیاں ہیں۔
آئی ایم ایف سے قرضوں کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ صرف ایک آئی ایم ایف کی بات کررہے ہیں، یہاں تو پوری معیشت گروی ہوگئی ہے، جس دن حکومت نے نیشنل اقتصادی کونسل بنائی اس میں قادیانی کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو شامل کیا جس سے ہماری معیشت کی سمت اور رخ کو مغرب کی طرف منتقل کرکے گروی رکھنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں نے جو ردعمل دیا اس سے ناپسندیدہ لوگوں کو نکالا گیا تو کونسل ہی ختم کردی گئی۔ اس وقت پوری معیشت کو امریکا اور مغرب کے تابع بنانے کیلئے کام کیا گیا تاکہ چین کیساتھ جو منصوبے ہیں یا انویسٹمنٹ ہے اس کو روکا جا سکے، ہمار ے اس پاکستان کو ایک بار پھر امریکا اور یورپ کی کالونی بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی لوگوں کیلئے انتقامی کاروائیاں ہیں، اس احتساب پر کوئی بھی پاکستانی یقین نہیں رکھتا، میرے خلاف انتقامی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جس کے لئے اداروں کو الگ سے ٹاسک دیا جاتا ہے، ہر سیاسی لیڈر محترم ہوتا ہے۔
انہوں نے فوجی عدالتوں کے سوال کے بارے میں کہا کہ ہم نے پہلے بھی فوجی عدالتوں کی حمایت کیلئے ووٹ نہیں دیا تھا آج ہم کیسے انکی توثیق کی حمایت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو اس حکومت کو لائے ہیں اس کو تنگ ہونا چاہیئے، کیونکہ جو بدنامیاں حکومت کما رہی ہے وہ بھی انکے کھاتے میں جانی چاہیئے۔