لوگوں اور گارڈ سے کہا یہ گاڑی آ رہی ہے
اس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد نےاس واقعے کے بارے میں بتایا کہ فرید ایکسپریس جب لانڈھی کے سٹیشن پر کھڑی تھی۔
اس وقت زوار حسین اپنے خاندان کے ساتھ فرید ایکسپریس کے آخری ڈبے میں سوار تھے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ کُل 35 افراد کا کنبہ تھا جو ایک شادی میں شرکت کے بعد واپس کراچی آ رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ صبح جب ٹرین لانڈھی کے سٹیشن پر رکی ہوئی تھی تو انھوں نے ایک دھماکے کی آواز سنی اور ایک شدید جھٹکا لگا اور وہ نیچے گر گئے اور ڈبے میں لگے پھٹے، نشستیں اور دیگر سامان سب ان کے اوپر آ گرا۔
‘میں نے ہمت کر کے وہاں سے کسی طرح نکلنے کی کوشش کی کیونکہ مجھے اپنے بچوں کی فکر تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے بچے بچیاں نیچے گرے ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں ڈبے سے نکال کر ایمبولینس میں پہنچایا۔’ انھوں نے بتایا کہ وہاں لاشیں اور خون پھیلا ہوا تھا۔
’اسی اثنا میں کسی نے مجھے پکڑ کر کہا کہ آپ بھی زخمی ہیں ایمبولینس میں بیٹھ جائیں تو میں نے کہا کہ بس میرے بچے بچ جائیں میری تو خیر ہے۔’
انھوں نے بتایا کہ صرف وہی فراد زخمی ہوئے ہیں جو آخری ڈبے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا سارا سامان بھی ملبے میں دب کر تباہ ہو گیا۔
ایک دوسرے مسافر محمد نواب نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ فرید ایکسپریس میں میلسی سے آٹھ نمبر ڈبے میں بیٹھے تھے۔ جب صبح گاڑی لانڈھی پر رکی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک گاڑی پیچھے سے آ رہی ہے۔
‘میں نے وہاں کئی لوگوں اور گارڈ سے کہا کہ یہ گاڑی آ رہی ہے مگر کچھ لوگوں نے کہا کہ انجن تبدیل ہو گا تم فکر مت کرو۔ مگر اسی دوران میں وہ ٹرین اس ٹرین سے ٹکرا گئی۔ میں نے نیچے چھلانگ لگا دی جس سے میرے پاؤں پر چوٹ آئی تاہم میں شدید زخمی ہونے سے بچ گیا۔’
نھوں نے مزید بتایا ‘میں فوراً پچھلے ڈبے کی جانب بھاگ کر گیا جہاں میرے دوسرے رشتےدار بیٹھے تھے۔ وہاں تو صرف آدھے کٹے ہوئے جسم پڑے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان سے ہم نے اپنے رشتے داروں کو نکالا تو وہاں پٹڑی کے ساتھ کے گھروں میں رکھا۔ وہاں کی خواتین نے زخمیوں کو پانی پلایا اتنے میں ایمبولینس آنی شروع ہو گئی تو پھر ہم زخمیوں کو ان میں ڈال کو ہسپتال لے کر آئے۔’
ایک اور زخمی شاہنواز نے بتایا کہ وہ حادثے کے وقت سیٹ پر بیٹھے تھے جس وقت ٹکر لگی۔
‘میں گرنے والے سامان کے بیچ پھنس گیا تھا اور اس سے میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ مگر پھر بھی کسی طرح ہمت کر کے کھڑکی کے راستے باہر نکلا ورنہ اندر ڈبے میں تو دم گھٹ کر ہی مر جاتا۔’
ایک دوسرے زخمی ملک اعجاز نے بتایا کہ ایک زوردار جھٹکا لگا جس سے میں گر پڑا اور مجھ پر ٹرین کی چھت کا حصہ گرا جس سے ان کا بازو ٹوٹ گیا اور ان کے سر پر چوٹ آئی۔