سندھ

چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ

ہندوستان اور تمام دنیا میں تقسیمِ ہند سے بےگھر ہونے والے سندھیوں کے دل و دماغ میں سندھ ہمیشہ موجود اور غیر موجود رہتا ہے۔ پنجاب، کشمیر، اور آسام، اور بعد میں بنگلہ دیش کے برخلاف، جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات کا شکار ہیں، انڈیا میں سندھ کے نام سے کوئی جغرافیائی خطہ نہیں پایا جاتا۔ تاہم سندھ انڈیا کی مغربی سرحد سے انڈیا کے اندر داخل ہوتا ہے۔

سرحد سے ملحق ہونے کے باوجود انڈین پاسپورٹ کے حامل افراد کا سندھ میں داخل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ ممبئی سے لندن آنا جانا کراچی جانے سے مشکل تر ہے۔ حالانکہ ان دو شہروں کے بیچ میں تاجر صدیوں سے تجارت کرتے چلے آئے ہیں۔

تاہم خطے کبھی بھی مستحکم عناصر نہیں ہوا کرتے۔ اور اس مٹی کی طرح، جو سندھ سے اٹھتی ہے اور بظاہر خودمختار علاقوں سے گزر کر دوسری طرف جا گرتی ہے، ہماری خواہشات اور تمنائیں بھی بنتی بگڑتی، دبتی اٹھتی، ادھر سے ادھر آتی جاتی رہتی ہیں۔

اس لیے جب میں ایک لمبے سفر کے بعد خبر پڑھتی ہوں کہ سہون شریف کو بم کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں بچوں سمیت زائرین ہلاک ہوئے ہیں تو مجھے ذاتی دکھ کا احساس ہوتا ہے۔ میرے والد لاڑکانہ میں پیدا ہوئے تھے، اور ان کا بچپن بمبئی میں گزرا تھا۔ انھوں نے میرے وائس میل پر ایک پیغام بھیجا تھا اور وہ اس بارے میں مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے۔ میں کبھی سیہون نہیں گئی، اور انھیں بھی یاد نہیں تھا کہ آیا وہ کبھی بچپن میں وہاں گئے ہوں۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ جب بھی وہ یہ نام سنتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ وہ وہاں جاتے رہے ہیں۔

سیہون، لعل شہباز قلندر اور جھولے لال بہت سے سندھیوں کے سنے سنائے نام ہیں۔ اگرچہ خوشی کی تقریبات میں یہ نام دمادم مست قلندر کی شکل میں دہرائے جاتے ہیں، جسے عابدہ پروین کی آواز نے دوام بخش دیا ہے۔

درحقیقت یہ دھمال اس قدر مقبول ہے کہ اسے تمام جنوبی ایشیا میں سندھی اور غیرسندھی ایک جیسے شوق سے سنتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ تک پتہ یہ سندھی نغمہ ہے، اور شاید اب یہ سندھی رہا بھی نہیں اور سیہون شریف کی طرح ہر کسی کی ملکیت بن گیا ہے۔

لعل شہباز قلندر، جھولے لعل اور سیہون کی تاریخ اور روایات اس قدر پیچیدہ، ثروت مند اور گہری ہیں کہ ان کی تمام پرتیں کھولنا، ان کی درجہ بندی کرنا اور انھیں سائنسی طریقے سے ‘جاننا’ ناممکن ہے۔

سندھ کی تاریخ کے ماہر مائیکل بوئون کہتے ہیں، سیہون میں صوفی ازم اور شیوا پنتھ کے دھارے مدغم ہو جاتے ہیں۔ لعل شہباز کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں کہ وہ فارسی النسل صوفی تھے، جن کا نام عثمان مروندی تھا۔ دوسرے کہتے ہیں کہ وہ شیوا پنتھی سادھو بھرتری ہری تھے۔

لعل شہباز کا لفظی مطلب سرخ عقاب ہے۔ یہ عقاب آزاد روحِ ازل کی علامت ہے۔ اس کے علاوہ مائیں بچوں کو بھی لعل کے نام سے پکارتی ہیں۔

ان کے مزار پر ہرشام ڈھولک کی تھاپ پر دھمال ڈالی جاتی ہے جو پاشوپتیوں اور رومی کے درویشوں کی یاد دلاتا ہے۔

لعل شہباز کو اکثر جھولے لعل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نام ان کے مزار پر بھی لکھا ہوا ہے۔ جھولے لعل ایک باریش دیوتا کا نام بھی ہے جنھیں اکثر ایک مچھلی کے اوپر سوار دکھایا جاتا ہے۔ بہت سے سندھی ان سے عقیدت رکھتے ہیں، اور لوگ انھیں ورونا، وشنو، کرشنا اور ناتھ جوگیوں کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔ تاہم اکثر اوقات انھیں صرف لعل، یا سرخ محبوب، کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔

لعل میری پت رکھیو بنا جھولے لعلن

سندھڑی دا، سیہون دا، سخی شہباز قلندر

ہند سندھ پیرا تیری نوبت باجے۔۔۔

یہ نغمہ روزانہ ہر قسم کی حدبندیوں سے پار جاتا ہے۔ شیعہ، سنی، ہندو، ہر کوئی ان کے مزار کی زیارت کرتا ہے۔

مزار کا مجاور ہندو ہے۔

ہر روز مزار پر مٹی کے دیے جلائے جاتے ہیں۔

لعل شہباز کے عرس پر تین جلوس نکالے جاتے ہیں، ایک کی قیادت سید گھرانے سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد کرتا ہے، دوسرے دو ہندوؤں کی قیادت میں نکلتے ہیں۔

ہر سورج ڈھلے پر مرد و عورت مزار کے احاطے میں دھمال ڈالتے ہیں۔

بم دھماکے کے ایک دن بعد دھمال کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔

 

یہ دھمال بعض لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئی تھی۔ ٹوئٹر کے ذریعے دھمال کی یوٹیوب ویڈیوز ادھر ادھر پھیلتی جا رہی تھیں اور اس کے بارے میں طرح طرح کے کمنٹس آ رہے تھے جن میں اسے شرک قرار دیا جا رہا تھا۔ دھماکے کے بعد یہ آوازیں آنا شروع ہو گئیں، ‘میں دھماکے کی مذمت کرتا ہوں مگر وہاں جو ہو رہا تھا وہ شرک ہے۔۔۔’

‘وہ ناچتے کیوں ہیں؟’

‘عورتیں سرِ عام کیوں ناچ رہی ہیں؟’

‘فقیروں نے بھنگ پی رکھی ہے۔’

‘یہ شرک ہے۔’

‘یہ بدعت ہے۔’

کیا کسی فقیر، کسی دھمال ڈالنے والے عقیدت مند یا کسی وجد میں آنے والے بزرگ نے کوئی خانقاہ دھماکے سے اڑائی ہے یا اتنے لوگوں کا قتلِ عام کیا ہے؟

دین کے کچھ رکھوالوں کو ان تاثرات اور تبصروں کے تشدد اور بڑی سطح پر ہونے والے بم دھماکوں کے تشدد کے درمیان تعلق نظر نہیں آتا۔

اس سے فرق نہیں پڑتا کہ سیہون میں جو ہو رہا تھا وہ شرک تھا یا بدعت۔ جیسا کہ بوئون کہتے ہیں کہ قلندر معاشرے سے تقدس کے ثبوت کے لیے الزام’ ڈھونڈ رہے تھے۔

سیہون شریف قائم ہے، اس استعارے کے طور پر کہ انسانی تعلقات میں سب کچھ ممکن ہے، انسانوں کے درمیان ایک ایسا تعلق جسے مذہبی خانوں سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اتحادِ مذہب اور مخلوطیت جیسے لفظ اس کا احاطہ کر سکتے ہیں۔

یہ ہے، اور رہے گا، چاہے موت آئے یا بربادی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close