کراچی: عدالت نے ڈاکٹر ماہا کیس میں 11 گواہان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
کراچی کی ایک سیشن عدالت نے ڈاکٹر ماہا علی خودکشی کے مقدمے میں ملزمان کے خلاف بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالت میں نہ پیش ہونے والے 11 گواہان کے قابل ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے۔
رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر پولیس نے بتایا تھا کہ کلفٹن کے نجی ہسپتال میں پریکٹس کرنے والی 24 سالہ ڈاکٹر نے 18 اگست 2020 کو ڈیفنس میں مبینہ طور پر اپنے آپ کو گولی مار کر خودکشی کی۔
بعدازاں ان کے چار دوستوں جنید خان، سید وقاص حسین رضوی، تابش یٰسین قریشی اور سعد ناصر صدیقی پر ریپ، قتل اور ثبوت چھپانے کے الزامات عائد کیے گئے۔
حال ہی میں یہ کیس ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج (جنوبی) اشرف حسین خواجہ کی عدالت میں آیا تو تفتیشی افسر نے آخری سماعت پر دی گئی عدالتی ہدایات کی تعمیلی رپورٹ پیش کی۔
قبل ازیں 2 اگست کو عدالت نے ملزمان جنید خان اور سید وقاص حسین رضوی کی جانب سے کیس میں سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ کی سزا) خارج کرنے کی درخواست منسوخ کردی تھی۔
عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت دی تھی کہ دونوں ملزمان جو گزشتہ ایک سال سے ڈی این اے نمونے دینے سے گریزاں ہیں ان کے نمونے حاصل کیے جائیں اور انہیں لیباٹری میں بھیجا جائے تاکہ متاثرہ کے نمونوں سے ملایا جاسکے۔
چنانچہ عدالت میں رپورٹ جمع کرواتے ہوئے تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ دونوں کے ملزمان کے نمونے 26 اگست کو حاصل کیے گئے جنہیں ڈی این اے میچنگ کے لیے لیاقت نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (ایل یو ایم ایچ ایس) جامشورو بھیج دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ لیبارٹری سے کیمیکل اینالائسز کی رپورٹ کے منتظر ہیں اور عدالت سے رپورٹ حاصل کر کے جمع کروانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کی۔
9 اگست کو عدالت نے چار افراد پر فرد جرم عائد کی تھی اور 11 گواہوں کو اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا۔
تاہم تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت کے جاری کردہ سمن پر گواہوں کو بھیجے نہیں جاسکے اس لیے ان میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
جس پر نوٹس جاری ہونے کے باوجود ان کی عدم موجودگی پر رعایت دیتے ہوئے جج نے ان کی گرفتاری کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے۔
عدالت نے تفتیشی افسر کو ہدایت دی کہ انہیں گرفتار کیا جائے اور 25 ستمبر کو عدالت میں پیش کر کے ان کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔
خیال رہے کہ چارج شیٹ میں تفتیشی افسر نے 38 گواہان کا اندراج کیا تھا جس میں متاثرہ خاتون کے اہل خانہ، وہ جوڈیشل مجسٹریٹ جس نے عدالتی حکم پر دوسری مرتبہ پوسٹ مارٹم کے لیے قبر کشائی کی نگرانی کی اور میڈیکل بورڈ کے اراکین سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔
ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 322 (اقدام قتل)، 376 (ریپ کی سزا)، 201 (شواہد چھپانے اور غلط بیانی) کے تحت گزری تھانے میں مقدمہ درج ہے۔