کراچی کیلئے ترقیاتی اسکیمیں بجٹ میں شامل نہ کی گئیں تو مستعفی بھی ہو سکتے ہیں، میئر کراچی
کراچی: میئر کراچی وسیم اختر نے وزیراعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ ہماری بھیجی گئی اسکیموں کو بجٹ میں شامل کرلیں ورنہ آخری اقدام احتجاج ہے یا پھر استعفیٰ دے دیں۔ میئر کراچی وسیم اختر نے کے ایم سی بلڈنگ میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کا آپشن استعمال کرلیا ہے، وزیراعلیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری بھیجی گئی ترقیاتی اسکیمیں بجٹ میں شامل کرلیں تو بہت اچھا ہے، ورنہ پھر ہم احتجاج اور استعفوں کے آپشن استعمال کریں گے، سٹی کونسل میں دیگر پارلیمانی پارٹیوں نے بھی حکومت سندھ کے بجٹ کو مسترد کردیا اور کہا کہ ہم احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کراچی کے صدر اور کونسل میں پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ کراچی کے ساتھ اس سے پہلے اتنی بڑی زیادتی کبھی نہیں ہوئی، کراچی کی سب سے بڑی دشمن پیپلز پارٹی ہے، بجٹ پر نظر ثانی نہ کی گئی تو احتجاج کریں گے، مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر امان خان فریدی نے کہا کہ ہم نے بجٹ قبول کیا ہے نہ کریں گے، پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
وسیم اختر نے کہا ہے کہ سندھ کے بجٹ میں لوکل کونسل نمائندوں کی تجویز کردہ ترقیاتی اسکیموں کو شامل نہ کرنا عوامی مینڈیٹ کی تضحیک اور کونسل کا استحقاق پامال کرنے کے مترادف ہے،صوبائی بجٹ میں کراچی کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ خود بھی منتخب ہوکر آئے ہیں، ابھی بجٹ منظور نہیں ہوا ان سے درخواست ہے کہ پیش کردہ بجٹ پر نظر ثانی کریں اور لوکل کونسلوں کی اسکیموں پر عملدرآمد کرائیں، تمام کام پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ذریعے کرانے ہیں تو پھر لوکل کونسلوں کو ختم کر دیا جائے، زیادہ تربجٹ ان جگہوں پر لگایا جا رہا ہے جہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ میئر کراچی نے کہا کہ سندھ حکومت لوکل کونسلز کو ذرائع آمدنی نہ بڑھانے کا طعنہ دیتی ہے مگر خود اپنے وسائل بڑھانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے، جس کا ثبوت ان کی بیلنس شیٹ ہے جو یہ بتاتی ہے کہ 1044 بلین روپے کے بجٹ میں سے 184 بلین روپے وصولی کا ہدف رکھا ہے، جو محض 17 فیصد ہے جبکہ اسے 83 فیصد فنڈ حکومت پاکستان سے ملتے ہیں، سندھ ریونیو بورڈ کے ریونیو کا 90 فیصد سے زائد کراچی سے وصول ہوتا ہے، سندھ ریونیو بورڈ کا تخمینہ 100 بلین روپے دکھایا ہے، جس کا مطلب ہے کراچی سے تقریباً 90 سے 95 بلین روپے جمع ہوں گے جبکہ مجموعی موٹر وہیکل ٹیکس میں 7.5 بلین روپے کا ہدف ہے جس کی 70 فیصد سے زائد آمدنی کراچی سے ہوگی۔
وسیم اختر نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس کے ایم سی کو منتقل ہونا چاہیئے تھا لیکن ابھی تک حکومت سندھ کے پاس ہے، انفرا اسٹرکچر چارجز جو 46 بلین روپے ہیں مکمل طور پر کراچی سے وصول کئے جاتے ہیں، جی ایس ٹی کی شرح 1999ء میں 12.5 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی گئی، جبکہ یہ بات طے تھی یہ اضافی رقم سندھ کونسلز کو بالترتیب ان کی او زیڈ ٹی کی متبادل کے طور پر دیا جائے گا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ سندھ کی کونسل خصوصاً کے ایم سی کو متفقہ فارمولے کے بجائے بہت ہی کم رقم دی جارہی ہے، جس کی وجہ سے کے ایم سی کو ماہانہ ایک ارب تین کروڑ روپے کی جگہ محض 462 ملین روپے مل رہے ہیں، کراچی کی عوام اضافی ٹیکس ادا کر رہے ہیں مگر کراچی کو اس کا جائز او زیڈ ٹی حصہ نہیں مل رہا ہے، 185 بلین روپے کے مجموعی بجٹ تخمینہ میں کراچی سے وصول ہونے والی رقم تقریباً 150 بلین روپے بنتی ہے اور اس کے مقابلے میں کراچی کا ترقیاتی بجٹ بمشکل 40 سے 50 بلین روپے بنتا ہے، اسی طرح سیوریج کے بڑے منصوبے ایس تھری کی ایلوکیشن بھی محض 224 ملین روپے دکھائی گئی ہے جو کہ 3 ارب روپے کے دعوے کے برخلاف معلوم ہوتی ہے۔
میئر کراچی کا کہنا تھا کہ مجموعی لوکل گورنمنٹ ڈیولپمنٹ اسکیمز جن میں کراچی کی 29 میگا اسکیمیں ملا کر کل 440 اسکیمیں بنتی ہیں لیکن ان میں سے 122 اسکیمیں صرف کراچی کیلیے ہیں، حالانکہ کراچی کی آبادی 40 فیصد کے قریب ہے لہٰذا اس اعتبار سے کراچی کو 200 سے زائد اسکیمیں ملنی چاہئیں، 40 بلین روپے کے لوکل گورنمنٹ ڈیولپمنٹ ورکس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ترقیاتی حصہ صرف ایک بلین روپے ہے اور اس کے علاوہ کے ایم سی کیلئے کوئی فنڈز مختص نہیں کئے گئے، تمام فنڈز سالڈ ویسٹ مینجمنٹ جیسے ایڈہاک انتظامات کے ذریعے استعمال کئے جارہے ہیں، جو بذات خود سپریم کورٹ کے احکام کے تحت غیر فعال ہوچکا اور پھر بھی اسے 2.95 بلین روپے دے دیئے گئے۔ علاوہ ازیں پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی نے سندھ کے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو احتجاج پر مجبور کیا جارہا ہے، جب تک لوکل گورنمنٹ کو بااختیار نہیں بنایا جائے گا عوام کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر امان اللہ آفریدی نے کہا کہ کراچی کی ڈھائی کروڑ آبادی کے ساتھ سندھ حکومت کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو سندھ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، یہاں سے بھاری ریونیو ریکوری کے باوجود کراچی کے شہری سہولیات کو ترس رہے ہیں۔