تاج محل مندر نہیں بلکہ تاریخی اسلامی عمارت ہے، بھارتی حکام نے بالآخر تسلیم کرہی لیا
آگرہ: بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے پہلی بار تسلیم کیا ہے کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں نے بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کا عزم کیا اور اس کام میں بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے تیزی آگئی ہے۔ بھارتی ہندو مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخی عمارات کے پیچھے بھی پڑے ہیں اور ان پر قبضہ کرنے پر تلے ہیں۔ اس سلسلے میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد تاج محل کے مندر ہونے کا شوشا چھوڑا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق آگرہ کی عدالت میں تاج محل کو مندر قرار دینے کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے حکام نے پہلی مرتبہ عدالت کو بتایا کہ تاج محل مندر نہیں بلکہ مقبرہ ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز بیگم کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ بھارتی آثار قدیمہ کے حکام نے اس بات کے ثبوت میں 1920ء میں جاری کردہ سرکاری نوٹی فکیشن بھی پیش کیا جس میں تاج محل کی حفاظت کو یقین بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سروے حکام نے درخواست گزاروں پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل اسلامی عمارت ہے جب کہ درخواست گزاروں کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ عدالت نے سماعت 11 ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔ سروے حکام کا کہنا ہے کہ تاج محل دنیا کا ساتواں عجوبہ شمار کیا جاتا ہے۔ 1904ء میں انگریزی دور سے اسے ایسی یادگار اور تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے جسکی حفاظت کی جانی چاہئے۔ بھارت کی مرکزی وزارت ثقافت نے نومبر 2015 ءمیں پہلے ہی لوک سبھا میں وضاحت کی تھی کہ تاج محل کے مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یاد رہے کہ اپریل 2015 میں 6 وکلاء نے آگرہ کی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا کہ تاج محل ہندوؤں کے بھگوان شیو کا مندر ہے لہذا یہ عمارت مذہبی مقاصد کے لیے ہندوﺅں کے حوالے کردی جائے۔ عدالت نے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت، مرکزی وزارت ثقافت، ہوم سیکریٹری اور آرکیالوجیکل سروے سے جواب طلب کیا تھا جس پر سروے حکام نے اپنا جواب جمع کراتے ہوئے آگرہ کی مقامی عدالت کے حق سماعت کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تاج محل سے وابستہ کسی بھی معاملہ کی سماعت مقامی کورٹ میں نہیں ہو سکتی۔