پی ایس ایل 3، کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلوؤں پر ایک نظر
پاکستان سپر لیگ کا شارجہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور تمام ٹیموں کے 3، 3 مقابلے بھی مکمل ہوئے۔ حیران کن طور پر اس اہم مرحلے پر جو ٹیم سب سے آگے نظر آتی ہے وہ کراچی کنگز کی ہے جس نے اپنے تمام ہی مقابلے جیتے ہیں جبکہ لاہور قلندرز حسبِ روایت، حسبِ توقع یا جو بھی آپ کہہ لیں، آخری نمبر پر ہے۔
درمیان میں تمام ٹیموں کے درمیان مقابلہ سخت ہے۔ کراچی کے بعد کوئٹہ اور ملتان ہیں جو 4، 4 پوائنٹس کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ اس سے نیچے پہلے اور دوسرے سیزن کے چیمپیئنز اسلام آباد اور پشاور ہیں جو اب تک صرف ایک، ایک کامیابی ہی حاصل کر پائے ہیں، اور یہ کارکردگی دونوں کے لیے ہی لمحۂ فکریہ ہے۔
لیکن، اتنی جلدی کسی بھی ٹیم کو پریشان یا بہت خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمام ٹیموں نے 10، 10 میچز کھیلنے ہیں یعنی اب بھی بہت کچھ تبدیل ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ لاہور بھی کوالیفائرز میں باآسانی پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے ہم آگے اندازوں کے بجائے پاکستان سپر لیگ سیزن 3 کے کچھ ایسے پہلوؤں پر بات کر لیتے ہیں جن پر شاید بہت کم غور کیا گیا ہے۔ ان میں سے چند پہلو تو مثبت ہیں اور کچھ منفی بھی۔ بہتر یہی ہے کہ ہم پہلے کچھ مثبت پہلوؤں پر بات کرلیں۔
جاندار کمنٹری
پی ایس ایل 3 میں تازہ ہوا کا جو پہلا جھونکا محسوس ہوا وہ کمنٹری ہے۔ ایلن ولکنز اور ڈینی موریسن نے تو پچھلے سیزن میں بھی پاکستانی تبصرہ کاروں کے ساتھ مل کر اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے تھے لیکن جس نے بھی اس سال مائیکل سلیٹر اور ڈیمین فلیمنگ کو شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا، اس کو ہمارا خصوصی سلام ہے۔ ان دونوں سابق آسٹریلوی کھلاڑیوں نے تو مقابلوں میں جان ڈال دی ہے۔
اس کی ایک جھلک تو آپ نے خود بھی دیکھی ہوگی جب کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف میچ میں کراچی کنگز کے شاہد آفریدی نے باؤنڈری لائن پر ایک خوبصورت کیچ لیا تو مائیکل سلیٹر نے کہا کہ
’شاہد آفریدی 37 سال کے ہیں، 38 کے ہونے والے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اصل میں 45 سال کے ہیں لیکن یہ دیکھ کر تو میں کہوں گا کہ ان کی عمر 32 سال ہے۔‘
یہی نہیں آسٹریلوی جوڑی نے اور بھی کئی چٹکلے چھوڑے ہیں اور ڈینی موریسن کی تنہائی کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ آسٹریلیا کے کمنٹیٹرز کی خاص بات ہوتی ہے کہ وہ میچ میں پوری طرح شامل ہوجاتے ہیں۔ بہرحال، سلیٹر اور فلیمنگ کی آمد سے خاتون تبصرہ کار میل جونز کی کمی بھی پوری ہوگئی ہے، جو اس سال پی ایس ایل میں کمنٹری نہیں کر رہیں۔ دوسری جانب ایلن ولکنز تو سدا بہار ہیں، اُن کی گلابی اردو میں ’چھکا‘ کی آواز بہت بھلی لگتی ہے۔ ابھی تو میدان اور گرم ہوگا، اس لیے کمنٹری میں مزید شاہکاروں کے لیے تیار رہیں۔
شاندار فیلڈنگ اور زوردار مقابلے
دوسرے مثبت پہلو کا تعلق میدان سے ہے۔ اب تک ہونے والے 9 مقابلوں میں ہم نے کئی ایسے کیچز دیکھے ہیں جو مدتوں یاد رکھے جائیں گے۔ کوئٹہ کے خلاف شاہد آفریدی کے کیچ کے علاوہ لاہور قلندرز کے شاہین آفریدی اور عمر اکمل کا ’ریلے کیچ‘، جو ڈینلی کا ’جونٹی رہوڈز‘ کی یاد دلا دینا اور محمد حفیظ اور احمد شہزاد کے عمدہ فیلڈ کیچز، یہی نہیں بلکہ فری-ہٹ پر کوئٹہ کے خلاف چیڈوِک والٹن کا کیچ بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا، یعنی ہر لحاظ سے یہ سیزن فیلڈنگ کے معاملے میں آگے نظر آ رہا ہے۔
کیچز چھوٹنے کی شرح بھی اب تک بہت ہی کم ہے ورنہ پاکستانی فیلڈرز ہوں تو اتنے میچز میں چھوٹنے والے کیچز کی تعداد درجن بھر ہوجانی چاہیے تھی۔ زیادہ خوشی کی، بلکہ حیران کن، بات یہ ہے کہ نوجوان پاکستانی فیلڈر بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں جیسا کہ پشاور کے نوعمر ابتسام شیخ نے دو بہت عمدہ کیچز پکڑے اور تجربہ کار کھلاڑی بھی پیش پیش رہے ہیں۔
خوبصورت کٹس
تیسرا مثبت پہلو ٹیموں کی کٹس کا ہے۔ ہم لاہور اور کراچی کی کٹ کی ہرگز بات نہیں کریں گے کیونکہ وہ بجائے جدت اختیار کرنے کے مزید پیچھے جارہے ہیں لیکن پشاور، کوئٹہ اور ملتان کی کٹس واقعی لاجواب ہیں۔ پشاور زلمی کی کٹ تو بین الاقوامی سطح کی کسی بھی ٹیم کا مقابلہ کرسکتی ہے، خاص طور پر اس میں جو تفصیلات ہیں، جیسا کہ ٹراؤزر پر پیلی پٹی میں ZALMI لکھا ہونا اور پشت پر بھی برانڈنگ اسے بہت عرق ریزی سے تیار کیا ہوا لباس بناتی ہے۔ ملتان سلطانز کی کٹ میں رنگوں کا انتخاب بہت عمدہ ہے اور ٹیم لوگو کا بھی بہت خوبی سے استعمال کیا گیا ہے۔ کوئٹہ نے سنہرے رنگ کااستعمال کرکے اپنی جامنی رنگ کی کٹ کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
منفی پہلو
تماشائیوں کی کمی
اگر پی ایس ایل 3 کے منفی اور مایوس کن پہلوؤں کی بات کریں تو سب سے نمایاں ہے میدان میں تماشائیوں کی کمی۔ ویسے تو نہ اس پر گِلہ کرنا بنتا ہے اور نہ ہی کسی کو مؤرد الزام ٹھہرانا مقصود ہے کیونکہ لیگ پاکستان میں نہیں کھیلی جا رہی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابتدائی مقابلے دبئی کے 30 ہزار تماشائیوں کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں ہوئے جسے بھرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پھر بھی خالی کرسیوں کو دیکھنا آنکھوں پر بہت گراں گزر رہا ہے خاص طور پر جب اتنے اچھے مقابلے کھیلے جا رہے ہوں۔
تشہیر کی کمی
ہم جیسے پاکستانی تماشائی تو دیکھ کر آہیں بھرتے رہتے ہیں کہ کاش یہ مقابلے یہاں منعقد ہوں۔ یقین جانیں کہ کسی ایک میچ کے ٹکٹ ملنا بھی مشکل ہوجائیں لیکن جہاں یہ ہو رہے ہیں، وہاں دیکھنے والے بہت کم ہیں۔ یہ پہلو نہ صرف پی ایس ایل کی جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ پاکستان منتقلی کی اہمیت ظاہر کرتا ہے، وہیں پر پی ایس ایل انتظامیہ کی توجہ بھی مبذول کرواتا ہے کہ وہ ٹورنامنٹ کے دوران امارات میں جامع تشہیری مہم پر توجہ دے۔
اب تک کسی بھی سیزن میں انتظامیہ کی جانب سے دبئی اور شارجہ میں مقابلوں کی تشہیر پر کوئی دھیان نہیں دیا گیا۔ شاید اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ہو لیکن جہاں اتنے شاندار میچز ہوں، وہاں ماحول بنانا ضروری ہوتا ہے۔ عالم تو یہ ہے کہ دبئی کی ایک بڑی آبادی کے علم میں ہی نہیں ہوتا کہ اسٹیڈیم میں ایک عالمی معیار کی کرکٹ لیگ کھیلی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر اس پہلو پر جلد توجہ نہ دی گئی تو دبئی کی نیلی کرسیاں پی ایس ایل کی برانڈ ساکھ کو بُری طرح متاثر کریں گی۔
امتحانات کے دوران ایونٹ کا انعقاد
ایک بہت اہم پہلو، جسے شاید نظر انداز کیا گیا ہے، وہ ہے پی ایس ایل کا ان ایام میں منعقد ہونا جب پاکستان بھر میں اسکولوں کے طلبہ کے سالانہ امتحان شروع ہو رہے ہیں۔ آسٹریلیا کی بگ بیش لیگ کی کامیابی کی 2 بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اس کا انعقاد ان دنوں ہوتا ہے جب تعلیمی اداروں میں تعطیلات ہوتی ہیں، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر آپ اہل خانہ کے ساتھ میچ دیکھنا چاہتے ہیں ٹکٹوں میں خاص رعایت ملتی ہے۔
بگ بیش پاکستان کے لیے بھی ایک متاثر کن لیگ کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے کم از کم اگلے سال پی ایس ایل کو کوشش کرکے فروری کے وسط تک مکمل کرنا چاہیے کیونکہ کرکٹ کے پرستاروں کی بہت بڑی تعداد اسکول طالب علم ہے۔ اگر انہیں پی ایس ایل دیکھنے کا موقع ہی نہ ملا یا وہ امتحانات کی وجہ سے مجبوراً دیکھ نہ پائے تو اس سے لیگ کی ریٹنگ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور فی الحال پی ایس ایل اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔