سیٹھی 2020 تک ملک میں عالمی کرکٹ کی مکمل بحالی کیلئے پرامید
ویسٹ انڈیز کے کامیاب دورہ پاکستان کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) نے 2020 تک ملک میں مکمل طور پر انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی امید ظاہر کی ہے۔ ورلڈ ٹی20 چیمپیئنز کے خلاف 3 ٹی20 میچوں کی سیریز کے بعد ملک کے ساحلی شہر میں 9 سال کے طویل عرصے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی جہاں سخت سیکیورٹی اور شدید گرمی کے باوجود شائقین کرکٹ نے بڑی تعداد میں اسٹیڈیم کا رخ کر کے کھیل کے لیے اپنا جوش و جذبہ ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ سیریز کو بھی کامیاب بنایا۔
گزشتہ ماہ کراچی نے پاکستان سپر لیگ کے فائنل کی میزبانی کی جس نے شہر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی20 سیریز کی راہ ہموار کی جہاں 2009 میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں کیے گئے حملے کے بعد سے شہر قائد پر بھی عالمی کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے۔
اس دوران پاکستان کو اپنی تمام ہوم سیریز متحدہ عرب امارات کے ریگستانوں میں جھلسا دینے والی گرمی میں کھیلنے پڑے تاہم گزشتہ 3 سال کے دوران سیکیورٹی میں ڈرامائی بہتری کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں بتدریج کرکٹ کی واپسی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
نجم سیٹھی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان اقدامت کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں، ہم اگلے سال مزید پی ایس ایل میچز کی میزبانی کریں گے۔
انہوں نے پیش گوئی کی کہ اگلے سال تک تمام ہی بڑی انٹرنیشنل ٹیموں کے صف اول کے کرکٹرز پاکستان آ کر کھیلنے پر رضامند ہو جائیں گے جس کی بدولت ہم ان کے بورڈ کو 2020 میں مکمل سیریز پاکستان میں کھیلنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
جہاں ملک میں کرکٹ کی واپسی پر اکثر لوگ خوش نظر آتے ہیں وہیں چند لوگ کرکٹ کی اس انداز میں واپسی پر زیادہ خوش نہیں۔
پاکستان کو 1192 کا ورلڈ کپ جتوانے والے قومی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم دکانیں اور روڈ بند کرا کر میچز کا انعقاد کر کے بیرون ملک کس طرح کا امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں؟۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ سیکیورٹی کی صورتحال بتدریج بہتر سے بہترین ہو رہی ہے جس سے غیرملکی کھلاڑیوں کا اعتماد بھی بحال ہونا شروع ہوا ہے۔
2017 میں پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا انعقاد لاہور میں کرایا گیا جہاں کوئٹہ گلیڈی ایٹز کے کھلاڑیوں کیون پیٹرسن، رلی روسو نے سیکیورٹی خدشات کے سبب پاکستان آںے سے انکار کردیا تھا۔
تاہم ایسا نہیں کہ ہر کوئی یہی سوچ رکھتا تھا بلکہ پشاور زلمی کی ٹیم کے اکثر کھلاڑیوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان کا سفر کیا جس میں دو مرتبہ ویسٹ انڈیز کو ورلڈ چیمپیئن بنوانے والے ڈیرن سیمی بھی شامل ہیں۔
اس میچ کے کامیابی سے انعقاد نے ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار کی جس کی دیکھا دیکھی سری لنکن ٹیم نے بھی لاہور میں ٹی20 میچ کھیلا جہاں پاکستانی عوام نے کھلے دل سے ان اسٹارز کا استقبال کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہا۔
پاکستانی عوام کے دل میں گھر کرنے والے سیمی نے اس سال بھی اپنے شائقین کو مایوس نہ کیا اور لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل کے دو پلے آف اور کراچی میں شیڈول فائنل میچ میں شرکت کر کے ناصرف اس ایونٹ کو کامیاب بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا بلکہ ویسٹ انڈین ٹیم کے دورہ پاکستان میں چند اسٹارز کھلاڑیوں کی شمولیت کا سبب بنے۔
یہ ڈیرن سیمی کا بیانیہ اور اعتماد ہی تھا کہ جس کی بدولت ان کے ہم وطن آندرے فلیچر، سیمیول بدری اور چیڈوک والٹن نے ویسٹ انڈین ٹیم کے ہمراہ پاکستان آئے۔
نجم سیٹھی نے کہا کہ ہمیں اندازہ ہے کہ کراچی اور لاہور کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن پاکستان کو اس سے بڑے اہداف حاصل ہوئے ہیں۔
اب پاکستان کرکٹ بورڈ کی نظریں بڑی ٹیموں کی میزبانی پر مرکوز ہیں جہاں بورڈ آئندہ سال جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ٹیم کی میزبانی کی توقع کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی وزیر داخلہ احسن اقبال انگلینڈ کو بھی دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے۔