کھیل و ثقافت

ہاکی ہمارا قومی کھیل، سال 2018 میں اس پر کیا گزری؟

پاکستان ہاکی ٹیم نے 2018 میں روایتی حریف بھارت کے ساتھ مشترکہ طور پر ایشین چمپیئن بننے اور 8 سال بعد ورلڈکپ میں شرکت کرکے ہاکی کی عظیم اقوام میں خود کو شامل رکھا۔

ہاکی کے سب سے زیادہ عالمی کپ جیت کر عظیم ٹیم کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے زبوں حالی کا شکار تھی اور یہاں تک کہ اولین ورلڈ کپ میں چمپیئن بننے والی ٹیم 2014 کے ورلڈ کپ اور اولمپک گیمز تک رسائی نہ کر پائی اور اسے کئی غیر معروف ٹیموں سے بھی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔

قومی ہاکی ٹیم کی تنزلی کی کئی وجوہات ہیں لیکن 2018 کا سال اس لیے اطمینان بخش رہا کیونکہ پاکستانی ٹیم نے رواں برس قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تاہم یہ کارکردگی قومی کھیل کے شایان شان نہ تھی۔

شہباز سینئر کو ہاکی فیڈریشن کا سیکریٹری بنائے جانے پر اُمید کا اظہار کیا گیا تھا کہ اب ٹیم کی حالت بہتر ہوگی اور عالمی سطح پر جس طرح ٹیم تنزلی کا شکار ہے وہ بتدریج ختم ہوجائے گی اور پاکستان ایک مرتبہ پھر دنیائے ہاکی میں اپنا راج قائم کرلے گا۔

شہباز سینئر کی فیڈریشن میں آمد سے تمام توقعات یک دم پوری تو نہ ہوئیں تاہم ان کے دور میں ٹیم کی کوچنگ کے لیے کسی غیرملکی کا انتخاب کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے اپنی کارکردگی کو بہتر کرکے ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا، یہ الگ بات ہے کہ بھارت میں کھیلے گئے اس ورلڈ کپ میں ٹیم کو ایک کامیابی بھی نصیب نہ ہوئی۔

پاکستانی ٹیم نے جہاں 2018 میں کارکردگی کو قدرے بہتر کیا اسی طرح ٹیم میں تنازعات بھی جنم لیتے رہے اور یہ تنازعات اس وقت گھمبیر صورتحال اختیار کر گئے جب غیرملکی کوچ اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی واپس جاچکے تھے اور ٹیم ایشین چمپیئن شپ کے فائنل میں بھارت جیسے حریف سے نبردآزما تھی، درحقیقت پاکستان کا ہاکی کے میدان میں اپنا وقار کھونے کی بنیادی وجہ بھی یہی تنازعات ہیں۔

پاکستان ہاکی ٹیم کی تنزلی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے اسٹارز اس صورت حال کے بڑی حد تک ذمہ دار ہیں کیونکہ شہباز سینئر سے پہلے بھی فیڈدریشن میں ماضی میں کئی سینئرز کھلاڑیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا لیکن اس کا نتیجہ قومی ٹیم کے بکھرنے کی صورت نکلا حالانکہ ماضی قریب میں سہیل عباس، ریحان بٹ سمیت چند بہترین کھلاڑی پاکستان ٹیم کا حصہ تھے لیکن وہ بھی ٹیم کو شکستوں سے بچا نہ سکے۔

ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ نے غیرملکی کوچ کی تقرری کا اچھا فیصلہ کیا تھا جس کے فوائد ٹیم کو حاصل ہوئے گوکہ سینئر کھلاڑیوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔

پاکستان ہاکی ٹیم نے 2018 کا آغاز ورلڈ الیون کے خلاف دو میچوں کی سیریز سے کیا جو طویل عرصے بعد پاکستان آئی تھی اس کے علاوہ ورلڈکپ، ایشین گیمز، ایشین چمپینز ٹرافی اور ہالینڈ میں منعقدہ چمپیئنز ٹرافی میں شرکت کی جبکہ 2018 میں اذالان شاہ ہاکی کپ میں قومی ٹیم شامل نہیں تھی۔

سال 2018 میں قومی ہاکی ٹیم کی کارکردگی اور اس سے متعلق اہم معاملات کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

ورلڈ الیون کا پاکستان کا دورہ

جنوری کے اواخر میں ورلڈ الیون نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں جرمنی، ارجنٹینا،اسپین، ہالینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سابق اسٹارز شامل تھے اور قومی ٹیم کے خلاف دو میچ کھیلے۔ اس سیریز کو پی ٹی سی ایل ہاکی کپ کا نام دیا گیا تھا۔ ماضی اسٹارز نے پاکستان میں سیکیورٹی کی صورت حال پر اطمینان کا اظہار کیا۔

ویمن ہاکی سپر لیگ

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے سال کے دوسرے مہینے فروری میں ملک میں خواتین ہاکی کے فروغ کے لیے دوسرے ویمن ہاکی سپر لیگ منعقد کی جس کا افتتاح اس وقت کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے 6 فروری کو کیا۔

لاہور لائنز نے پشاورکو شکست دے کر ٹائٹل حاصل کیا۔

تین ملکی ہاکی ٹورنامنٹ

پاکستان کی ہاکی ٹیم 2018 میں اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں عمان پہنچی جہاں میزبان ٹیم کے علاوہ جاپان کے ساتھ سہ فریقی سیریز کھیلی گئی۔

قومی ٹیم نے پہلے ہی میچ میں عمان کو0-3 سے شکست دی، دوسرے میچ میں جاپان کو شکست سے دوچار کیا پاکستان کی جانب سے علی شان، اعجاز احمد اور شفقت تسول نے ایک، ایک گول کیا۔

سیریز کے دوسرے میچ میں جاپان سے مقابلہ 2-2 گول سے برابر رہا، شجیع سعید اور ابوبکر محمود نے ایک، ایک گول کیا۔

تیسرے میچ میں میزبان عمان کی کمزور ترین ٹیم نے اپ سیٹ کرتے ہوئے قومی ٹیم سے مقابلہ چار، چار گول سے برابر کردیا۔

قومی ٹیم کے شفقت رسول نے 2 گول کیے، ارسلام قادر اور ابوبکر محمود نے بالترتیب ایک،ایک گول کرکے ٹیم کو شرم ناک شکست دسے بچالیا۔

عمان سے میچ برابر کرنے کے بعد قومی ٹیم نے مبشر علی اورعمر بھٹہ کے ایک ایک گول کی مدد سے جاپان کو 1-2 سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنالی جبکہ جاپان نے میزبان عمان کو 0-4 سے شکست دی اور فائنل میں پاکستان اور جاپان آمنے سامنے ہوئے۔

سہ فریقی سیریز کا فائنل 21 فروری کوکھیلا گیا جہاں غیرمعروف جاپان کی ہاکی ٹیم نے سنسنی خیزمقابلے کے بعد 4 مرتبہ عالمی چمیئن رہنے والی پاکستان ٹیم کو 2-3 سے زیر کرکے سیریزجیت لی، ارسلان قادر اور مبشرعلی نے پاکستان کے لیے ایک، ایک گول کیے۔

سیریز میں پاکستان کی جانب سے شفقت رسول نے سب سے زیادہ 3 گول کیے، مبشر علی اور ارسلان قادر نے 2-2 گول کیے۔

غیرملکی کوچ کا تقرر و استعفیٰ

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے دولت مشترکہ گیمز سے قبل ہی ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہاکی کے مشہورکوچ رولینٹ اولٹمینز سے 2 سال کے لیے قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طورپرمعاہدہ کیا۔

ٹیم کی مسلسل شکستوں اور ناقص کارکردگی کی ذمہ داری لیتے ہوئے رولینڈ اولٹیمنز نے 22 ستمبر کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

ہاکی فیڈریشن کو بھیجے گئے اپنے استعفے میں اولٹیمنز نے کہا کہ قومی ٹیم کی کارکردگی اور نتائج کی پوری ذمے داری قبول کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ حالات وہ ماحول پیدا کرنے سے قاصر ہیں جس کے ذریعے ہم ٹیم سے بہترین نتائج حاصل کر سکیں۔

ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے سابق کھلاڑی نے کہا کہ میرے خیال میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے پاس وہ طاقت نہیں کہ وہ موجودہ حالات کو اس لحاظ سے ڈھال سکیں جو مجھے درکار ہیں۔

دولت مشترکہ گیمز

پاکستانی ٹیم رضوان سینئر کی قیادت میں دولت مشترکہ گیمز میں شرکت کے لیے 27 مارچ کو آسٹریلیا روانہ ہوئی اور اپنا پہلا میچ 5 اپریل کو ویلز کے خلاف کھیلا جو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک،ایک گول سے برابر رہا، پاکستان کی جانب سے واحد گول مبشرعلی نے کیا۔

دولت مشترکہ گیمز میں پاکستان اور روایتی حریف بھارت کا سامنا 7 اپریل کو ہوا اور شائقین کو بہترین مقابلہ دیکھنے کو ملا اور میچ کا اختتام بھی 2،2 گول سے ہوا۔

بھارت نے ابتدائی دو گول کرکے برتری حاصل کرلی تھی تاہم عرفان جونیئر اور مبشر علی نے 38 ویں اور 60ویں منٹ گول کرکے قومی ٹیم کو شکست سے بچایا اور مقابلہ 2-2 سے برابر رہا۔

پاکستان کو دولت مشترکہ گیمز میں بھارت، انگلینڈ اور ویلز کے ساتھ گروپ بی میں رکھا گیا تھا اور 8 اپریل کو قومی ٹیم کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوا اور ایک مرتبہ پھر قومی ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن کامیابی حاصل نہ کرپائے تاہم میچ کو 2-2 گول سے برابر کردیا۔

مبشرعلی اور عرفان جونیئر نے ایک مرتبہ پھر ٹیم کے لیے شاندار گول کیے۔

گولڈ کوسٹ آسٹریلیا میں منعقدہ مقابلوں میں یوں تو پاکستانی ٹیم ناقابل شکست رہی لیکن فتح بھی ان سے روٹھی رہی جس کے باعث ٹیم کا سفر سیمی فائنل تک رسائی سے پہلے ہی مکمل ہوا کیونکہ ملائیشیا کے ساتھ کھیلا گیا ایک اہم میچ بھی شفقت رسول کے واحد گول کی بدولت 1-1 گول سے برابر رہا تھا جس کے بعد پاکستان کو ساتویں پوزیشن کے لیے کینیڈا سے مقابلہ کرنا پڑا۔ —فوٹو:پی ایچ ایف

پاکستان نے دولت مشترکہ مقابلوں میں اپنا آخری میچ 13 اپریل کو کینیئڈا سے کھیلا اور زبردست کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے باآسانی1-3 سے کامیابی حاصل کر کے ساتویں پوزیشن اپنے نام کی اور بغیر کسی میڈل کے وطن واپس لوٹی، اس میچ میں پاکستان کی جانب سے ارسلان قادر، عرفان جونیئر اور مبشر علی نے ایک، ایک گول کرکے ٹیم کو ٹورنامنٹ میں واحد اور آخری فتح دلادئی۔

سابق اولمپیئن منصور احمد کاانتقال

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان، گول کیپر، اولمپیئن اور ملک کو عالمی چیمپئن بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے منصور احمد طویل علالت کے بعد 12 مئی 2018 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

منصور احمد دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی میں زیر علاج تھے۔

کراچی میں 1968 میں پیدا ہونے والے سابق قومی کپتان منصور احمد 1986 میں پاکستان سینئر ٹیم میں منتخب ہوئے اور ایشین گیمز میں سلور میڈل حاصل کیا، مرحوم منصور احمد نے 14 سالہ کیریئر میں 338 انٹر نیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

منظور احمد نے ہاکی میں بے شمار اعزازات حاصل کیے، 1988 میں انہیں صدارتی ایوارڈ جبکہ 1994 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

منصور احمد نے 3 مرتبہ اولمپکس اور عالمی مقابلوں میں نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا اور 1990 کے عالمی کپ میں سلور اور 1994 کے عالمی کپ میں گولڈ میڈل، 1990 کے ایشین گیمز میں گولڈ میڈل اور 1992 کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا، اس کے علاوہ انہیں 4 مرتبہ دنیا کے نمبر ون گول کیپر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

پی ایچ ایف کے انتخابات

15مئی 2018 کو پاکستان ہائی فیڈریشن (پی ایچ ایف) کے انتخابات ہوئے، برگیڈیئر (ر) خالد سجاد کھوکھر صدر اور شہباز سینئر سیکریٹری منتخب ہوئے، اسی طرح سندھ، پنجاب میں بھی ہاکی ایسوسی ایشنز کے انتخابات ہوئے اور نئی انتطامیے کا انتخاب عمل میں آیا۔

آخری چمپیئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی

ہاکی کی تاریخ کی 37 ویں اور آخری چمپیئنزٹرافی جون 2018 میں ہالینڈ میں ہوئی جس میں پاکستانی ہاکی ٹیم بھی شرک تھی جہاں24 جون پہلے ہی میچ میں روایتی حریف بھارت سے ہوا اور حریف ٹیم نے قومی ٹیم کو چاروں شانے چت کرتے ہوئے مقابلہ 0-4 سے جیت لیا۔

دوسرے میچ میں اس وقت کی عالمی چمپیئن آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم کا سامنا تھا تاہم قومی ٹیم نے گزشتہ میچ کے مقابلے میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اوراعجاز احمد کےگول کی بدولت ہاف تک مقابلہ 1-1گول سے برابر رہا لیکن دوسرے ہاف میں آسٹریلیا کے بلیک گروور نے دوسرے گول کے ذریعے اپنی برتری ثابت کردی۔

چمپیئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی کا سلسلہ طویل ہوتا ہوا تیسے میچ تک پہنچ گیا اور 27 جون کو میزبان نیدرلینڈز سے مقابلہ یک طرفہ ثابت ہوا اور میزبان ٹیم نے میچ باآسانی0-4 سے جیت کر ایونٹ میں پاکستان کے سفر کو مزید مختصر کردیا۔

کفر ٹوٹا خداخدا کر کے مصداق پاکستان کو چمپیئنز ٹرافی میں پہلی فتح 28 جون کو اولمپک چمپیئن ارجنٹینا کے خلاف ملی، اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 گول کیے اور مدمقابل ٹیم کو صرف ایک گول کرنے کا کوئی موقع دیا۔

عرفان جونیئر، مبشرعلی، اعجاز احمد اور علیم نے پاکستان کی جانب سے ایک، ایک گول کیا۔

چمپیئنز ٹرافی میں پہلی فتح کے بعد قومی ٹیم کو 29 جون کو ہی ایک اور مضبوط ٹیم بیلجیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا، علیم بلال نے 2 گول کرکے مقابلے کی کوشش کی لیکن بیلجیم نے 4 گول کرکے اپنی برتی واضح کردی تھی جہاں تک قومی ٹیم پہنچ نہ سکی اور 2 گول کے خسارے سے مقابلہ ہار گئی۔

پاکستانی ٹیم ناقص کارکردگی کے باعث سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی اور 2 جولائی کو ٹورنامنٹ کی چھٹی پوزیشن کے لیے ایک مرتبہ پھر بیلجیم سے سامنا ہوا، اس مرتبہ قومی ٹیم نے بھرپور کھیل کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں میچ کا فیصلہ پنالٹی اسٹروک پر ہوا جہاں قومی ٹیم کی کمزوری ایک مرتبہ پھر عیاں ہوئی اور میچ بیلجیم کے حق میں چلا گیا۔

تاریخ کی آخری چمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے ساتویں پوزیشن حاصل کی اور ناقص کارکردگی کے بعد ٹورنامنٹ کا سفر وقت سے پہلے مکمل کرلیا۔

ایشین گیمز میں قومی ٹیم کا شاندار آغاز

پاکستان ہاکی ٹیم کو چمپیئنز ٹرافی میں مسلسل شکستوں کے بعد اگست میں ایشین گیمز میں شرکت کرنا تھا اور ملک میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی حکومت قائم ہو چکی تھی اور ہاکی فیڈریشن کے صدر خالد کھوکھر او سیکریٹری شہباز سینئر نے نئے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے فیڈریشن اور ہاکی ٹیم کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔

ایشین گیمز میں پاکستان کا افتتاحی میچ 20 اگست کو تھائی لینڈ سے تھا، قومی کھلاڑیوں نے ایک غیر معروف ٹیم کے خلاف بے رحم کھیل کا مظاہرہ کیا اور 10 گول کرکے ایونٹ میں شاندار آغاز کیا۔

پاکستان کی جانب سے عتیق ارشد نے 3، توثیق ارشد، محمد عرفان اور ابوبکر نے2،2 گول کیے اور ایک گول مبشر علی نے کیا۔

قومی ٹیم کو اگلے میچ میں ایک اور غیرمعروف ٹیم عمان کا سامنا تھا جس کے خلاف سال کے شروع میں ایک میچ میں برابری کے تلخ نتیجے کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم 22 اگست کو جکارتا میں ہوئے اس میچ میں پاکستان نے گزشتہ مقابلے کا حساب چکاتے ہوئے ہوئے 10 گول سے شکست دی۔

عمان کی ٹیم علی شان اور دیگر کے سامنے مکمل بے بس نظر آئی اور کوئی گول نہ کرسکی، علی شان نے ہیٹ ٹرک کی، عرفان اور دلبر نے2،2 اور دیگر تین گول عمر بھٹہ، عتیق ارشد اور اعجاز احمد کے حصے میں آئے۔

قومی ٹیم نے 24 اگست کو قازقستان کے خلاف تباہ کن کارکردگی دکھائی اور دنیائے ہاکی کی غیر معروف ٹیم کو 16 گول سے شکست دے دی۔

قازقستان کو 0-16 سے شکست دینے میں جن کھلاڑیوں نے بے رحمی سے حصہ لیا ان میں توثیق ارشد نے 4 گول، ابوبکر محمود 3 گول، علی شان، رضوان سینئر اور عمر بھٹہ 2،2 گول کے علاوہ عتیق ارشد، دلبر اور مبشر علی ایک، ایک گول کے ساتھ شامل تھے۔

قومی ٹیم نے 9 گول اوپن، 5 گول پنالٹی کارنر اور 2 گول پنالٹی اسٹروک کے ذریعے کیے۔

ایشین گیمز میں پاکستانی ٹیم کی شاندار کارکردگی ملائیشیا جیسی قدرے مضبوط ٹیم کے خلاف بھی جاری رہی اور 26 اگست کو کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے اعجاز احمد کے 2، عرفان سینئر اور مبشرعلی کے ایک، ایک گول کی بدولت ملائیشیا کو 1-4 سے شکست دے دی۔

28 اگست کو پاکستان کا مقابلہ بنگلہ دیش سے تھا جہاں پاکستان نے با آسانی 0-5 سے کامیابی سمیٹ لی، پاکستان کی جانب سے عتیق ارشد اور مبشر علی نے 2-2 گول اور علی شان نے ایک گول کرکے ٹیم کو کامیابی دلائی۔

ایشین گیمز میں پاکستان کو اپ سیٹ شکست

پاکستانی ٹیم نے ایشین گیمز 2018 کے آغاز سے ہی زبردست کارکردگی دکھائی لیکن جکارتا میں کھیلے گئے سیمی فائنل میں جاپان سے اپ سیٹ شکست کا سامنا کرکے ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا۔

جاپان کی ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا اور پاکستان کو گول کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا اور پہلے ہی ہاف میں پنالٹی کارنر پر گول کرکے برتری حاصل کرلی جو آخر تک قائم رہی۔

قومی ٹیم گروپ مقابلوں میں زبردست کارکردگی کے بعد سیمی فائنل میں جاپان سے شکست کے بعد ایونٹ سے باہر ہوگئی۔

یکم ستمبر کو پاکستان اور روایتی حریف بھارت ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے ہوئے جہاں کانسی کے تمغے کے لیے مقابلہ ہوا۔

عتیق ارشد کا واحد گول جیت کے لیے ناکافی ثابت ہوا اور بھارت نے پاکستان کو 1-2 سے شکست دے کر تمغہ حاصل کیا یوں ایشین گیمز میں پاکستان کا سفر بغیر کسی تمغے کے تمام ہوا۔

ایشین چمپیئنز ٹرافی 2018

ایشین گیمز میں شکست کے بعد پاکستان کی ٹیم مسقط میں منعقدہ ایشین چمپیئنز ٹرافی میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی، ماضی میں کھیلے گئے ایشین چمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کا ریکارڈ بہترین تھا اور ٹیم سے اچھی کارکردگی کی امید کی جارہی تھی جس پر ٹیم پوری اتری۔

ایشین چمپیئنز ٹرافی میں پاکستان نے 19 اکتوبر کو کوریا کے خلاف جیت کے ساتھ فاتحانہ آغاز کیا۔

اعجاز احمد، عمر بھٹہ اور رضوان سینئر نے ایک، ایک گول کرکے پاکستان کو کوریا کے خلاف 1-3سے کامیابی دلا دی۔

پاکستان کا روایتی حریف بھارت سے 21 اکتوبر کو سامنا ہوا جہاں قومی ٹیم نے پھر گھٹنے ٹیک دیے اور ایونٹ کے دوسرے میچ میں 1-3 سے شکست کھا گئی۔

عرفان جونیئر نے شروع میں ہی گول کرکے پاکستان کو برتری دلادی تھی لیکن 24 ویں منٹ میں بھارت کے منپریت سنگھ نے گول کرکے مقابلہ برابر کیا جس کے بعد 31 ویں منٹ میں دوسرا گول بھی منپریت نے کیا جبکہ تیسرا گول دلپریت سنگھ نے کیا۔

مسقط میں کھیلی گئی چمپیئنز ٹرافی کے مقابلوں میں 23 اکتوبر کو پاکستان نے عمان کو علیم بلال کی ہیٹ ٹرک کی بدولت1-8سے شکست دے دی۔

علیم کے علاوہ دیگر گول کرنے والے کھلاڑیوں میں عرفان جونیئر، شکیل عماد بٹ، عرفان سینئر، ابوبکر محمود اور عتیق ارشد شامل تھے۔

جاپان اور پاکستان 24 اکتوبر کو مدمقابل ہوئے اور اس مرتبہ بھی جاپان نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کرکے قومی ٹیم سے میچ کو 1-1 گول سے برابر کردیا تاہم 25 اکتوبر کو ملائیشیا کے خلاف قومی ٹیم نے0-1سے کامیابی حاصل کرکے ایونٹ کے فائنل تک رسائی کے امکانات روشن کردیے کیونکہ سیمی فائنل میں ملائیشیا سے ہی مقابلہ تھا۔

سیمی فائنل میں ملائیشیا نے پاکستان کو ناکوں چنے چبوائے اور مقابلہ پنالٹی شوٹ تک چلا گیا جہاں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ٹیم کو فائنل میں جگہ دلائی۔

پاکستان کی جانب سے علیم بلال، عرفان جونیئر اور ابوبکر محمود نے گول کیا۔

ایشین چمپیئنز ٹرافی کا فائنل 29 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونا تھا لیکن مسقط کے دارالحکومت میں ہونے والی بارش نے فائنل کو ناممکن بنا دیا جس کے بعد دونوں روایتی حریف ٹیموں کو مشترکہ طور پر چمپیئن قرار دیا گیا۔ —فوٹو:پی ایچ ایف

6 ملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پاکستان کو رنراپ ٹرافی کے ساتھ گولڈ میڈل دیا گیا جبکہ بھارت کو ونر ٹرافی کے ساتھ سلور میڈل سے نوازا گیا، تیسری پوزیشن ملائیشیا اور چوتھی پوزیشن جاپان نے حاصل کرلی۔

پاکستانی ٹیم کی 2018 میں یہ سب سے اہم کامیابی تھی حالانکہ ایشین گیمز میں شاندار کارکردگی کے باوجود جاپان جیسی ٹیم سے شکست کے باعث ٹائٹل کی دوڑ سے باہر ہوگئی تھی۔

یہ کامیابی پاکستان کو اس لیے بھی اہم تھی کیونکہ نومبر میں بھارت میں ہاکی کا ورلڈ کپ ہورہا تھا اور قومی ٹیم کو 8 سال بعد عالمی کپ میں شرکت کرنا تھا۔

شہباز سینئر کیلئے اہم عہدہ، پاکستان کیلئے اعزاز

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری شہباز سینیئر کو بھارت میں ایک تقریب کے دوران انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے ایگزیکٹو بورڈ کا رکن منتخب کیا گیا جو پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ —فوٹو:پی ایچ ایف

ایف آئی ایچ کا 46 واں کانگریس اجلاس بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہوا جس میں دنیا بھرسے 250 مندوبین نے شرکت کی جہاں 2 مرد اور 2 خواتین امیدواروں کو ایگزیکیٹو بورڈ اراکین کے لیے منتخب کیا گیا۔

جرمنی کے ڈاکٹر مائیکل گرین اور شہباز سینئر کے ساتھ رکنیت حاصل کرنے والے دوسرے مرد امیدوار ہیں، خواتین کی نشستیں ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کی ماورین کریگ روسو اور گھانا کی ایلزبیتھ سوفوا کنگ کے نام رہیں۔

سابق اولمپیئن رضوان منیر بھٹہ کا انتقال

پاکستان ہاکی کو 2018 میں منصور احمد کے بعد سابق اولمپیئن رضوان منیر بھٹہ کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔

قومی ٹیم کے سابق گول کیپر نے اولمپک 1988، چمپیئنز ٹرافی 1988 اور جونیئر ورلڈ کپ 1989 میں پاکستان کی نمائندگی کی۔

قومی ٹیم کا ورلڈکپ کا بھیانک سفر

سب سے زیادہ عالمی کپ جیتنے کا ریکارڈ رکھنے والی پاکستانی ٹیم کو 2018 ورلڈ کپ میں بھیانک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور کسی فتح کے بغیر دوسرا راؤنڈ کھیل کر وطن واپس لوٹنا پڑا۔

ہاکی ورلڈ کپ 2018 بھارت کے شہر بھوبھنشور میں ہوا جس کے لیے دفاعی چمپیئن آسٹریلیا کو فیورٹ قرار دیا جارہا تھا جبکہ قومی ٹیم کو ٹائٹل کی دوڑ میں شمار نہیں کیا جارہا تھا تاہم ایونٹ میں اچھی کارکردگی کی امید کی جارہی تھی لیکن ورلڈ کپ میں ان کی بہترین کارکردگی ملائیشیا کے خلاف میچ کو ان تھک محنت کے بعد برابر کرنا تھا۔

قومی ٹیم کا بھارت میں استقبال

پاکستان ہاکی ٹیم عالمی کپ میں شرکت کے لیے براستہ واہگہ 24 نومبر کو بھارت پہنچ گئی جہاں ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔

ورلڈ کپ 2018 میں پاکستان کا پہلا میچ یکم دسمبر کو جرمنی سے ہوا اور 0-1 کی شکست سے ایونٹ کا آغاز کیا جس کا سلسلہ ختم نہ ہوا یہاں تک ٹیم بغیر جیت کے لیے وطن واپس لوٹی۔

پاکستان ورلڈ کپ کے گروپ ڈی میں شامل تھا جہاں جرمنی، نیدرلینڈز اور ملائیشیا کی ٹیمیں موجود تھیں۔

دوسرا میچ ملائیشیا سے 5 دسمبر کو ہوا جو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 1-1 گول پر ختم ہوا، اس میچ میں نائب کپتان عماد شکیل بٹ کو حریف ٹیم کے کھلاڑی سے ٹکر پر ایک میچ کی پابندی بھی عائد کی گئی تھی جو اپیل کے بعد ختم ہوگئی۔

ملائیشیا سے میچ کے بعد پاکستان کو کپتان رضوان سینئر کی انجری سے بڑا نقصان بھی پہنچا لیکن جب ٹیم ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

نیدرلینڈز نے پاکستان کو تیسرے میچ میں 1-5 کے واضح مارجن سے شکست دی تاہم اس کے باوجود ورلڈ کپ کے اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے موہوم سی امید باقی تھی۔

پاکستان ہاکی ورلڈ کپ2018 سے باہر

بھارت کے شہر بھوبھنیشور میں 11 دسمبر کو بیلجیم نے پاکستان کو 0-5 سے شکست دے کر عالمی کپ سے باہر کردیا۔

میچ کے 10ویں منٹ میں بیلجیم کو پینالٹی کارنر ملا جس پر الیگزینڈر ہینڈرکس نے گول کر کے اپنی ٹیم کو برتری دلائی، 13ویں منٹ میں تھامس بریلس نے فیلڈ گول کر کے مارجن کو دگنا کردیا۔

سیڈرک نے 27 ویں منٹ میں گول کرکے برتری کو تین صفر کردیا۔

میچ کے پہلے ہاف کے اختتام تک بیلجیئم کو عمدہ کھیل کی بدولت 0-3 کی برتری حاصل تھی لیکن دوسرا ہاف بھی پاکستان کی قسمت نہ بدل سکا۔

میچ کے 35ویں منٹ میں دو پاکستانی دفاعی کھلاڑیوں کی غلطی سے بیلجیم کو گول کرنے کا موقع ملا اور سباستین ڈوکیئر نے گیند کو گول میں پہنچانے میں کوئی غلطی نہ کی۔

بیلجیئم نے اس کے بعد بھی حملوں کا سلسلہ تواتر سے جاری رکھا اور اس دوران پاکستانی ٹیم بالکل بے بس نظر آئی۔

میچ کے 53ویں منٹ میں یورپین ٹیم کو پینالٹی اسٹروک ملا اور اس پر گول کی بدولت بیلجیئم نے 0-5 سے کامیابی اپنے نام کرتے ہوئے پاکستان کے عالمی کپ میں سفر کا خاتمہ کردیا۔

سیکریٹری پی ایچ ایف شہباز سینئر کا استعفی

ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد ٹیم کے ہیڈ کوچ سمیت انتظامیہ اور شکست کے تمام ذمہ داروں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تاہم صدر خالد کھوکھر اور سیکریٹری شہباز سینئر کی جانب سے فوری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

سال کے اختتامی لمحات میں پاکستان ہاکی کے عظیم کھلاڑی اور پی ایچ ایف کے سیکریٹری شہباز سینئر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد فیڈریشن میں غیریقینی کی صورت حال مزید گھمبیر ہوگئی۔

صدر مملکت کو بھیجے گئے اپنے استعفے میں انہوں نے حکومتی رویے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اور وزارت بین الصوبائی رابطہ کے پاس قومی کھیل کے لیے وقت نہیں تو پھر میرے پاس بھی وقت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہاکی کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہی نہیں ہے جس دن سے فیڈریشن میں آیا ہوں بار بار یہی کہا کہ اس نظام میں رہتے ہوئے ہاکی نہیں چل سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ہاکی کے لیے ہمارے پاس کوئی اثاثہ یا فنڈز کا نظام موجود نہیں اور فنڈز نہ ہونے کے باعث ہر وقت غیر یقینی کی صورت حال رہتی ہے۔

شہباز سینئر کا مزید کہنا تھا کہ متعدد مرتبہ حکومت اور وزارت کھیل کو قومی کھیل کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا لیکن قومی کھیل کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بہت افسوس ہوا۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ ہاکی کو سہولیات نہیں دی جاتیں لیکن نتائج کا پوچھا جاتا ہے، نامساعد حالات کے باوجود پوری کوشش کرتا رہا لیکن اب ہاکی کی موجودہ صورت حال برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انقلابی اقدامات اور حکومتی مدد کے بغیر ہاکی ٹھیک نہیں ہوسکتی لیکن وزارت بین الصوبائی رابطہ نے ایک فیصد بھی تعاون نہیں کیا۔

سال کا اختتام

ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہے اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جاپان جیسی غیرمعروف ٹیم سے جیت کے لیے ‘دعاؤں’ کی ضرورت پڑتی لیکن قومی کھیل کو اس نہج تک پہنچانے کی اصل وجوہات کا تعین ہونے سے ہی بہتری آئے گی ورنہ فیڈریشن ہمیشہ کی طرح حکومت پر الزامات عائد کرتی رہے گی اور حکومت فیڈریشن کو ذمہ دار قرار دیتی رہے گی اور قومی کھیل ٹھیک نہیں ہوگا۔

شہباز سینئر عظیم کھلاڑی ہیں انہوں نے اپنے استعفے میں حکومت اور دیگر اداروں کے رویے کی نشان دہی کی اور ہاکی کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی کا حوالہ دیا جس پر سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

قومی کھیل کے ساتھ اس کھلواڑ میں فیڈریشن کو پیچھے دھکیلنے میں سابق عظیم کھلاڑیوں کی بھی غلطیاں ہیں جو محض مخالفت کے باعث ماضی میں پی ایچ ایف سے متعلق میڈیا میں آتے رہے لیکن ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا۔

دنیائے ہاکی میں ایک مرتبہ پھر راج کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں اور نئے کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے ہمارے پاس سابق اسٹار کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے، ضرورت صرف حکومت کی توجہ اور سابق کھلاڑیوں کی معاونت کی ہے۔

حکومت ہاکی کے فروغ کے لیے فنڈز میں اضافہ کرے اور کرکٹ کی طرز پر لیگ اور اسپانسرز کا انتظام کرے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم دوبارہ ہاکی کے عالمی چمپیئن بن جائیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close