کھیل و ثقافت

روسی حکام کا پہلی بار ڈوپنگ کا اعتراف

نو دسمبر کی جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ہزار سے زیادہ روسی کھلاڑیوں کو سنہ 2011 سے 2015 کے درمیان ڈوپنگ پر رازداری برتنے سے فائدہ پہنچا ہے

روسی حکام نے ڈوپنگ پروگرام کی موجودگی اعتراف تو کیا ہے لیکن اس بات سے انکار کیا ہے کہ اسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔

روس کی ڈوپنگ مخالف ایجنسی کی نگراں ڈائریکٹر اینا اینتسیلیووچ نے کہا کہ یہ ادارہ جاتی سطح پر ہونے والی سازش تھی۔

کھیلوں کے شعبے سے منسلک سوویت دور کے معروف اہلکار 81 سالہ ویٹیلی سمرنوو کو صدر پوتن نے انسداد ڈوپنگ کے نظام میں اصلاحات کے لیے مقرر کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ میں اس کے ذمہ دار افراد کے حق میں نہیں بولنا چاہتا۔ سابق وزیرکھیل اور اولمپک کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے میرا خیال ہے کہ ہم نے بہت سی غلطیاں کی ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا فینسی بیئرز نامی ہیکر گروپ نے ایتھلیٹوں کی جو طبی معلومات افشا کی تھیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ روسی ایتھلیٹ برابری کی سطح پر مقابلہ نہیں کر رہے تھے۔

ڈوپنگ کے خلاف کام کرنے والی عالمی ایجنسی واڈا نے جولائی میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ روس کی وزارت کھیل نے اپنے ایتھلیٹوں کے پیشاب کے نمونوں سے چھیڑ چھاڑ کا حکم دیا تھا اور اس کی نگرانی کی تھی۔

ایک دوسری رپورٹ میں کہا گيا تھا کہ لندن 2012 کے اولمپکس مقابلوں میں بڑے پیمانے پر نمونوں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔

کینیڈا کے قانون کے پروفیسر اور سپورٹس کے وکیل ڈاکٹر رچرڈ میک لارین کی رپورٹ کے مطابق روس کے ممکنہ تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹوں کو بچانے کے لیے ان کے نمونے کو متاثر کرنے کے لیے کافی اور نمک کا استعمال کیا گیا تھا اور ایسا لندن 2012 اولمپکس، ماسکو کے 2013 ورلڈ اور سوچی میں منعقد ہونے والے سنہ 2014 کے سرمائی اولمپکس میں ہوا تھا۔

روس نے لندن میں 21 طلائی تمغوں سمیت مجموعی طور پر 72 تمغے حاصل کیے تھے۔

اس سے قبل روسی اہلکاروں نے ڈوپنگ کی موجودگی سے انکار کیا تھا لیکن روس کو کئی بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد اور روسی ایتھلیٹوں کو بین الاقوامی مقابلوں سے شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close