آخر انڈیا نے ایسا کون سا جادو کیا کہ اس کی ہاکی ایک بار پھر بلندیوں کو چھونے لگی
اگر انڈیا ایسا کر رہا ہے تو پھر اس کا پڑوسی ملک پاکستان ابھی تک ہاکی کے زوال سے کیوں نکل نہیں پا رہا اور وہ بین الاقوامی دھارے سے باہر ہوچکا ہے
پاکستان اور انڈیا کی ہاکی کے تقابلی جائزے سے قبل اولمپکس مقابلوں میں انڈین ٹیم کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اگرچہ منگل کو ٹوکیو اولمپکس کے سیمی فائنل میں انڈیا کی مردوں کی ہاکی ٹیم کو عالمی چیمپیئن بیلجیئم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا تاہم انڈین ٹیم کا اولمپکس کے سیمی فائنل تک پہنچنا ہی ایک بڑا کارنامہ سمجھا جا رہا ہے۔
ٹوکیو اولمپکس میں انڈین ٹیم نے کوارٹر فائنل میں برطانیہ کو شکست دی تھی۔ گروپ مقابلوں میں اس نے نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی کے بعد آسٹریلیا سے سات ایک کی بھاری شکست کھائی تھی لیکن اس شکست کے بعد اس نے جاپان، ارجنٹائن اور سپین کو ہرایا تھا۔
دوسری جانب انڈیا کی خواتین کی ہاکی ٹیم نے فیورٹ آسٹریلیا کو ہرا کر پہلی مرتبہ اولمپکس کے سیمی فائنل میں جگہ بنائی ہے۔
انڈیا نے اگرچہ 1980 کے ماسکو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا لیکن ان مقابلوں میں پاکستان سمیت بین الاقوامی ہاکی کی نو بڑی ٹیمیں سوویت یونین کے خلاف ہونے والے بائیکاٹ کے سبب موجود نہیں تھیں اور صرف چھ ٹیموں کے ایونٹ میں انڈیا سپین کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔
ہربیندر سنگھ 1964 میں ٹوکیو میں ہی میں منعقدہ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی انڈین ہاکی ٹیم کے کھلاڑی تھے اور اب جو ٹیم ٹوکیو گئی ہے اسے سلیکٹ کرنے والوں میں ہربیندر سنگھ بھی شامل ہیں۔
بھارتی ٹیم کو کووڈ کے سبب اس سال زیادہ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اس سے قبل اس نے پرو ہاکی لیگ میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور بڑی ٹیموں کے خلاف میچز بھی جیتے تھے۔ جب یہ ٹیمیں آپ کے سامنے دوبارہ آتی ہیں تو قدرتی طور پر آپ کا اعتماد بڑھا ہوا ہوتا ہے مورال بلند ہوتا ہے۔ ٹوکیو اولمپکس میں ٹیم کی اچھی کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ ٹیم کا کامبینیشن اچھا بنا ہوا ہے اور اس کی فٹنس بھی بہت اچھی ہے اور کووڈ کی وجہ سے اس نے زیادہ تر وقت بنگلور کے ٹریننگ کیمپ میں گزارا ہے جس کا کھلاڑیوں کو کافی فائدہ ہوا ہے۔‘
ʹجب انڈین ٹیم لندن اولمپکس میں آخری نمبر پر آئی تو میڈیا میں اسے انڈین ہاکی کی موت قرار دے کر تعزیت لکھی گئی لیکن اس کے بعد انڈیا نے کارکردگی کو اوپر لانے کے لیے بہت محنت کی۔ʹ
اجیت پال سنگھ نے کہا ʹانڈیا میں اس بات پر کبھی بھی برا نہیں منایا گیا کہ غیرملکی کوچز کیوں لائے گئے کیونکہ ہم سب انڈین ہاکی کو ٹاپ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔
اجیت پال سنگھ کہتے ہیںʹانڈین ٹیم کا ٹوکیو اولمپکس کے سیمی فائنل میں پہنچنا بڑی بات ہے کیونکہ اس کا مقابلہ اس وقت کی بڑی ٹیموں سے ہوا ہے جبکہ 1980 میں اس نے جب اولمپک گولڈ میڈل جیتا تھا تو اس کے سامنے صرف سپین کی ٹیم تھی۔‘
اجیت پال سنگھ کہتے ہیںʹ انٹرنیشنل ہاکی کے لیے پاکستان کا دوبارہ اوپر آنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہاکی میں پاکستان نے جو کچھ کیا ہے وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ پاکستان کو اپنی ہاکی کا معیار پھر سے بلند کرنا ہوگا۔ محنت کرنی ہوگی۔ دنیا پاک انڈیا کی روایتی ہاکی کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :اولمپک کوالیفائر کیلئے پاکستان کی ہاکی ٹیم کا اعلان
ʹانڈین ہاکی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری راتوں رات نہیں آئی ہے بلکہ اس نے مرحلہ وار یہ سفر طے کیا ہے جس میں حکومت، سپانسرز اور فیڈریشن سب کا کردار اہم رہا ہے۔ʹ
کلدیپ لعل کہتے ہیں ʹجب انڈین ٹیم بیجنگ اولمپکس سے باہر ہوئی اور لندن اولمپکس میں آخری نمبر پر آئی تو اڑیسہ کی حکومت نے ہاکی کے معاملات میں گہری دلچسپی لی جس کے بعد دوسرے علاقوں میں بھی ہاکی پر بھرپور توجہ دی گئی۔
انڈین ہاکی ٹیم کے موجودہ کوچ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے گراہم ریڈ ہیں۔ ان سے قبل انڈین ہاکی آسٹریلیا کے رک چارلس ورتھ، ٹیری والش، ہالینڈ کے رولینٹ آلٹمینز اور شوئرڈ میرین کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھاتی رہی ہے شوئرڈ میرین مردوں کی ٹیم کے بعد اب خواتین ٹیم کے کوچ ہیں
پاکستان کے سابق ہاکی اولمپئن سمیع اللہ کہتے ہیں ʹانڈیا نے نچلی سطح یعنی گراس روٹ لیول پر ہاکی کو منظم کرکے ایک بار پھر انٹرنیشنل لیول پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے اس کے برعکس پاکستان کی ہاکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور آج وہ ورلڈ رینکنگ میں 18 ویں نمبر پر ہے۔ʹ
سمیع اللہ اپنے دو ساتھی کھلاڑیوں قاسم ضیا اور اختر رسول کے نام لے کر کہتے ہیں ʹیہ دونوں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بنے لیکن دونوں نے ہاکی کی ترقی کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی کہ قومی ہاکی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ حکومت نے فیڈڑیشن کو پیسے ضرور دیے لیکن ساتھ میں اپنے لوگ بھی وہاں لگائے۔ʹ
سمیع اللہ کا کہنا ہے ʹہمارے زمانے میں کھلاڑیوں کو پی آئی اے، کسٹمز اور بینکوں میں مستقل ملازمتیں ملتی تھیں اب ان اداروں کی ٹیمیں بھی نہیں رہی ہیں۔ واپڈا میں کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک کھلاڑی اپنے کریئر کے خاتمے کے بعد مستقل ملازمت نہ ہونے کی صورت میں کیا کرے گا؟ʹ
سمیع اللہ کہتے ہیں ʹجب کھلاڑیوں کو ہاکی کی بنیاد پر ملازمتیں ملنا بند ہوگئیں تو انہوں نے غیرملکی ہاکی لیگس کھیلنے کا راستہ نکالا تاکہ اپنی مالی ضروریات پوری کرسکیں۔ʹ
سمیع اللہ کا کہنا ہے ʹکسی زمانے میں ملک بھر میں لوکل ٹورنامنٹس بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ کلب سکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ٹورنامنٹس کا انعقاد ہوا کرتا تھا جہاں سے ٹیلنٹ سامنے آتا تھا یہ سلسلہ بھی اب نہیں رہا۔ʹ
سمیع اللہ اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں کہ آسٹروٹرف کے آنے کے بعد ہماری ہاکی زوال پذیر ہوئی ہے۔
آسٹروٹرف کے آنے کے باوجود گھاس پر کھیلنے والے کھلاڑی 1984 تک غیرمعمولی کارکردگی دکھاتے رہے تھے۔
سمیع اللہ کا کہنا ہے ʹآج کی انٹرنیشنل ہاکی میں فٹنس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ہمارے کھلاڑی اس سے دور ہیں۔ پاکستان ہاکی کو آج بریگیڈئر عاطف، بریگیڈئر حمیدی، کرنل ظفری، ذکا الدین جیسے بے لوث لوگوں کی ضرورت ہے جنہوں نے ہاکی کو بلند مقام پر رکھنے کے لیے دن رات ایک کردی تھی لیکن جب ایک ایسی لہر آئی جس میں بوگس کلبس اور کاغذ پر اکاڈمیاں اور واٹس ایپ پر ہاکی ہونی شروع ہوئی تو نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔