بلیک واٹر پاکستان میں آسکتی ہے، اراکین اسمبلی کے خدشات
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اراکین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی دباؤ پر ’’ویزا آن ارائیول‘‘ اسکیم سے بلیک واٹر پاکستان میں آسکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ارکان نے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے حکومت کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کو ملکی ایئرپورٹس پر ہی ویزا جاری کرنے کی اسکیم امریکی دباؤ پر شروع کی گئی اور اس سے بلیک واٹر دوبارہ پاکستان میں آ سکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے ’’ویزا آن ارائیول‘‘ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ امریکی دباؤ پر ویزا آن ارائیول پھر شروع کر دیا گیا، اس اقدام سے قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ماضی میں اسی سہولت کی وجہ سے بلیک واٹر کا ایشو بنا جب کہ این جی اوز اس آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کریں گی، جن ممالک کو یہ سہولت دی گئی وہ ہمیں ویزا بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ شیریں مزاری کے خدشات پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے اتنے ہی چوکنا ہیں جتنا کوئی اور، ویزا کی کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کرائی گئی، جو پہلے سے موجود ہے اسی کے تحت اقدام کیا گیا، یہ نہیں ہوگا کہ ٹام، ڈک، ہیری جس کا دل چاہے آ جائے، گائیڈ لائن موجود ہیں کس طرح کے لوگ آئیں گے جب کہ سیکیورٹی چیکس موجود ہیں اور اس کا مقصد صرف سیاحوں کو سہولت دینا ہے۔ میں اس خدشے کو مسترد کرتا ہوں کہ بلیک واٹر یا سیکیورٹی کنٹریکٹرز آ جائیں گے، ہم بین الاقوامی این جی اوز کا خیر مقدم کریں گے اور این جی اوز کی آڑ میں بھی پاکستان مخالف عناصر نہیں آنے دیں گے۔ وزیر داخلہ کے جواب پر قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 500 ڈالرز پر ویزا مل جاتا تھا جب کہ وہ 2 لاکھ میں ویزا دیتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ آئے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ تھے، تاہم کسی تنازعہ یا بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ وزیر داخلہ کی وضاحت میں ابہام پر بات کرنا ضروری ہے، قومی سلامتی کا ایشو ہے، سیاست کی نذر نہ ہونے دیں، آئی این جی اوز وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں ہیں لہذا اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ہم ملک میں آئی این جی اوز کے قطعی مخالف نہیں ہیں، امریکا سے کہا کہ این جی اوز میں امریکی صدر کی دلچسپی کیوں ہے۔ جان کیری نے کہا کہ ہم وزارت داخلہ کو کئی ملین ڈالرز دینا چاہتے ہیں مگر وہ دلچسپی نہیں لیتے، ہمارے پاس آئی این جی اوز کی امداد کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں جب کہ این جی اوز کو اجازت اسلام آباد کی ہے مگر کام بلوچستان میں کرتی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ’’ویزا آن ارائیول‘‘ پر پابندی میں نے لگائی، میں نے واضح پالیسی بنائی کہ ویزا آن ارائیول دو طرفہ ہو، کوئی ہمیں ویزا آن ارائیول دیتا ہے تو انہیں بھی دیں، اگر ہمارے وزیر کو ویزا کے لیے سفارت خانے جانا پڑتا ہے تو ان کا وزیر بھی جائے۔ جتنے پیسوں میں ہم ویزا دیتے ہیں وہ ملک بھی اتنے میں دے، یہ بہت ساری چیزیں ہیں جو سیاست کی نذر نہ کریں۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزارت داخلہ نے پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے ’’ویزا آن ارائیول‘‘ اسکیم کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت دنیا کے مختلف ملکوں کے شہری گروپ کی شکل میں پاکستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر پہنچ کر مختصر مدت کا ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔