وہ قبیلہ جو ہندوﺅں سے بھی آگے نکل گیا، بھینس کا ایسا شرمناک استعمال کہ جان کر آپ بھی کانوں کو ہاتھ لگائیں گے
خرطوم: ہندو گائے کو ایک مقدس جانورمانتے ہیں اور اسے اپنی ’ماں‘کادرجہ دیتے ہوئے اس کا پیشاب پینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔دنیا میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جو نہ صرف بھینس کا پیشاب پیتا ہے بلکہ ہندوﺅں سے دو ہاتھ آگے نکلتے ہوئے اس کے گوبر کو اپنے چہرے اور جسم پر یہ سوچ کر لگالیتے ہیں کہ اس طریقے سے جلد کی بیماریوں اور انفیکشن سے بچ جاتے ہیں۔
جنوبی سوڈان کے دارلحکومت ’جوبا‘کے شمال میں ’منڈاری‘قبیلے کے نام سے جانے جانیوالے اس قبیلے کے لوگوں کی زندگی گائے اور بھینسوں کے گرد گھومتی ہے۔یہ قبیلہ گائے کے پیشاب سے سر دھوتا ہے جس سے ان کے بالوں کا رنگ سنہری ہوجاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گائے کا گوبر جسم پر مل لینے سے نہ صرف وہ جلد کی انفیکشنزاور افریقہ کی شدید گرمی سے بچ جاتے ہیں بلکہ اس طرح وہ مچھروں سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔چونکہ ان کی گزراوقات اور زندگی کا دارومدار ان بھینسوں پر ہے اور یہ ان کے لئے بہت زیادہ قیمتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کی حفاظت کے لئے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ہر سال سوڈان میں ساڑھے تین لاکھ گائیں چوری ہوجاتی ہیں اور اس کی وجہ سے 2500مارے بھی جاچکے ہیں۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مسلح افراد بھی رکھے ہوئے ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ان جانوروں کو ایک خاندان کے فرد کے طور پر رکھا جاتا ہے اور جب یہ گائیں چارا کھاکر واپس آتی ہیں تو انہیں اپنی مالکوں کا اچھی طرح علم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ سیدھی ان کے پاس جاتی ہیں۔
یہاں پر جانے والے فوٹوگرافر طارق زیدی جنہوں نے 10سال کا وقت ان قبیلے کے افراد کے ساتھ گزاراکا کہنا ہے کہ وہ قبیلے کے جس فرد سے ملااس کی اپنی پسندیدہ گائے اور بھینس تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں گائے کو کرنسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ قبیلے کے افراد کی عمارت کی نشانی بھی سمجھی جاتی ہے۔جنوبی سوڈان میں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد جب لوگ واپس لوٹے تو انہیں خواتین کی کمی کی وجہ سے دلہنوں کی قیمتیں بڑھ چکی تھیں اور ایسی صورتحال میں گائے کی اہمیت بھی بڑھ گئی اور جن لوگوں کے پاس زیادہ گائے تھیں وہ زیادہ مالدار اور بیویوں کے حقدار بننے لگے۔طارق زیدی کا کہناہے کہ یہ قبیلہ دنیا سے کٹ کر جھاڑیوں اور کھلے میدانوں میں شہروں سے دور رہتا ہے۔