‘بھارتی فوج کے سامنے چین کے صبر کا پیمانہ لبریز’
نئی دہلی: چین نے بیجنگ میں موجود غیرملکی سفارت کاروں کو واضح پیغام دیا ہے کہ ڈوکلام میں چینی فوج بھارتی اہلکاروں کے مدمقابل ‘صبر’ کا مظاہرہ کررہی ہے تاہم ایسا زیادہ دیر تک نہیں کیا جائے گا۔ گذشتہ روز بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والی رپورٹ میں نامعلوم پی 5 حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ بیجنگ میں موجود سفارتی برادری اس حوالے سے فکرمند ہے جبکہ کئی سفارت کار بیجنگ میں موجود اپنے بھارتی ہم منصب اور نئی دہلی میں اپنے بھوٹانی ہم منصبوں تک چین کے اس پیغام کو پہنچا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ اس تنازع کا آغاز گذشتہ ماہ اُس وقت ہوا تھا جب بھارتی فوج کی جانب سے ڈوکلام میں چینی سڑکوں پر جاری کام کو روک دیا گیا تھا جس کے بعد سے چینی اور بھارتی فوج آمنے سامنے ہے۔
بیجنگ کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ نئی دہلی اس معاملے پر پیچھے ہٹ جائے۔
ذرائع نے بھارتی اخبار کو آگاہ کیا کہ گذشتہ ہفتے ایک بند کمرہ بریفنگ میں چینی حکام نے بیجنگ میں موجود سفارت کاروں کو اپنے مؤقف سے آگاہ کیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق چینی حکومت جی20 ممالک کے رکن کئی ملکوں کو بھی اس حوالے سے علیحدہ بریفنگ دے چکی ہے۔
چین کی جانب سے سفارتی برادری کو بتایا گیا ہے کہ اصل تنازع چین اور بھوٹان کے درمیان ہے لیکن بھارتی فوجی زبردستی اس میں شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار نے بھارتی اخبار کو بتایا کہ ‘بیجنگ میں موجود ہمارے ساتھیوں نے بریفنگ میں شرکت کی جہاں انہیں یہ بتایا گیا کہ چینی فوج بھارتی اہلکاروں کے سامنے زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرے گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھیوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بھارت چینی علاقے میں داخل ہوکر اسٹیٹس کو تبدیل کرچکا ہے۔
اخبار کے مطابق سفارت کار کا یہ بیان بھارتی مؤقف سے متضاد ہے، 30 جون کو جاری ہونے والے ایک بیان میں نئی دہلی کا کہنا تھا کہ وہ "حالیہ چینی سرگرمیوں’ پر ‘گہری تشویش’ رکھتے ہیں اور اپنے تحفظات سے چینی حکومت کو آگاہ کرچکے ہیں کہ ڈوکلام میں ‘سڑک کی تعمیر مکمل ہو جاتی ہے تو اس سے چین کو انڈیا پر اسٹریٹجک برتری حاصل ہو جائے گی’۔
چین کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ڈوکلام چین کا حصہ ہے اور ہمیشہ سے ‘چین کے سرحدی رہائشیوں کے لیے روایتی چراگاہ’ رہا ہے۔
سفارت کاروں کو بتایا گیا کہ بھارتی فوج کو فوری اور غیرمشروط طور پر اپنی سرحد تک محدود ہونا پڑے گا جس کے بعد ہی بھارت اور چین کے درمیان بامعنی مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔
دریں اثناء منگل (18 جولائی) کو چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھی بھارت کو متنبہ کیا گیا کہ وہ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ڈوکلام میں دخل اندازی کو ‘آلہ کار’ کے طور پر استعمال نہ کرے۔
بھارتی اخبار نے لکھا کہ چینی وزارت خارجہ نے بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے بھارتی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلالیا جائے۔
‘بند کمرہ بریفنگ’ پر چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ بیجنگ میں موجود غیر ملکی وفود سے ‘قریبی رابطے’ میں ہیں تاہم انہوں نے اجلاس کی تصدیق کرنے سے انکار کیا۔