صحرا میں واقع ایک خفیہ کیمپ، جہاں ہزاروں دلہنیں بے یار و مددگار پڑی ہیں
بغداد: دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو گی جہاں شدت پسند تنظیم داعش کے ظلم و ستم کی داستانیں نہ پہنچی ہوں گی، لیکن حیرت ہے ان نوجوان خواتین پر جو اس کے باوجود داعش کے جنگجوﺅں کی دلہنیں بننے کے لئے شام اور عراق جا پہنچیں۔ خود چل کر داعش جیسی تنظیم کے چنگل میںجا پھنسنے والی ان خواتین کا انجام سوائے اس کے کیا ہو سکتا تھا کہ ان میں سے بہت سی ماری گئیں، بڑی تعداد کو جنسی غلام بنا لیا گیا، اور جو باقی بچ گئیں وہ عراقی صحرا میں واقع ایک خفیہ کیمپ میں بے یار و مددگار پڑی ہیں۔ دی مرر کی رپورٹ کے مطابق یہ خفیہ کیمپ عراقی صحرا کے ایک دور دروز علاقے میں واقع ہے اور یہاں داعش کے 1400 سے زائد جنگجوﺅں کی بیویاں اور بچے مقیم ہیں ۔ یہ جنگجو مارے جا چکے ہیں یا انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے اور یا ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ ان تمام خواتین اور ان کے بچوں کو عراقی فورسز نے گزشتہ مہینے حراست میں لیا اور اب ان کی موجودگی کے مقام کو خفیہ رکھا جا رہا ہے کہ کیونکہ اس بات کا سنگین خدشہ موجود ہے کہ داعش کی جانب سے حملہ کر کے ان سب کو ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ اس کیمپ کا انتظام اقوام متحدہ چلا رہی ہے۔
کیمپ میں موجود ایک روسی خاتون نے روسی ٹی وی ’آر ٹی‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا ” ہم میں سے اکثر خواتین یہاں اپنے خاوندوں کے ساتھ رہنے آئی تھیں۔ ہم یہاں لڑنے کیلئے نہیں آئی تھیں۔ میری والدہ جب میری مدد کیلئے آئیں تو شدت پسندوں نے انہیں نے بھی پکڑ لیا۔ “ اسی طرح یوکرین سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ”جیسے ہی میں داعش کے علاقے میں پہنچی تو احساس ہوا کہ میں بہت بڑی غلطی کر چکی تھی۔ میں نے جنگ کو دیکھا اور اس کا میرے ذہن پر بہت برا اثر ہوا۔ میں واپس جانا چاہتی تھی لیکن مجھے واپس نہیں جانے دیا گیا ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ خواتین کو مار دیتے ہیں اور بچوں کو لیجانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں یہاں اور نہیں رکنا چاہتی کیونکہ مجھے اس بات سے بہت خوف محسوس ہو رہا ہے۔“ خفیہ کیمپ میں امریکا ، یورپ ، افریقہ ، چین ، روس اور ترکی جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں۔ عراق میں موصل شہر سے داعش کا قبضہ ختم ہونے کے بعداس تنظیم کو مسلسل پسپائی کا سامنا ہے۔ موصل اور دیگر مقامات سے فرار کے دوران ہی جنگجو ان خواتین اور بچوں کو چھوڑ کر فرار ہوئے تھے۔