یورپ کی جانب بےضابطہ ہجرت کے دن پورے ہو چکے
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ یورپ کی جانب ’بےضابطہ ہجرت‘ کے دن پورے ہو چکے ہیں اور اب ایسے تارکینِ وطن کے لیے یورپ میں کوئی جگہ نہیں۔
انھوں نے یہ بات پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے بحران پر ترکی اور یورپی یونین کے درمیان برسلز میں ہونے والے ہنگامی اجلاس کے خاتمے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہی۔
یورپ کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے اور زیادہ تر تارکینِ وطن ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہو رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ تارکینِ وطن کو بحیرۂ ایجیئن عبور کرنے سے روکا جائے گا اور ایسے افراد جو بےضابطہ طور پر یونان کے ساحل پر اترے ہیں انھیں واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔
ترکی کا کہنا ہے کہ ہر ایک واپس کیے جانے والے تارکِ وطن کے بدلے یورپ کو شام کے ایک پناہ گزین کو لینا ہوگا۔
ترکی نے یورپی یونین سے مزید امداد دینے اور ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دیے جانے کے لیے بات چیت کی کوششیں تیز کرنے کے مطالبات بھی کیے ہیں۔
یورپی یونین نے ترکی کو وہاں مقیم شامی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کے لیے تین ارب یورو کی امداد دینے پر اتفاق کیا ہے
ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ اجلاس میں رہنماؤں نے ’اچھی پیش رفت‘ کی ہے اور وہ اگلے ہفتے تک کسی معاہدے کی امید کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پیش رفت سے یہ پیغام واضح انداز میں گیا ہے کہ ’یورپ میں بے ضابطہ تارکینِ وطن کی آمد کے دن بیت گئے ہیں۔‘
یورپی یونین کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ بہت حد تک اس منصوبے کے وسیع اصولوں پر رضامند ہیں تاہم انھیں معاہدے کی تفصیلات پر کام کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
خیال رہے کہ یہ مذاکرات 17 اور 18 مارچ کو ہونے والی یورپی یونین کے اجلاس سے قبل جاری رہیں گے۔
ایک بیان میں یورپی رہنماؤں نے کہا کہ انھوں نے وسیع خطوط پر معاہدے کی مندرجہ باتوں کی حمایت کی ہے۔
- ترکی کے ساحل سے یونان پہنچنے والے تمام نئے بے ضابطہ پناہ گزینوں کو ترکی واپس کیا جائےگا اور اس کے اخراجات یورپی یونین برداشت کرے گا۔
- ترکی سے ایک شامی پناہ گزین کو یونان سے واپس کیے جانے والے ہر ایک شامی پناہ گزین کے بدلے یورپ میں آباد کیا جائے گا۔
- ترکی کے باشندوں کو یورپ میں بغیر ویزے کے آنے جانے کے منصوبے پر تیزی لائی جائے اور رواں سال جون تک ان پر سے ویزے کی پابندی ہٹالی جائے۔
- اکتوبر میں ترکی کے لیے جس تین ارب یورو فنڈ کا وعدہ کیا گیا تھا اس کی فراہمی میں تیزی لائی جائے اور ترکی کے لیے اس بحران سے نمٹنے کے لیے مزید فنڈز دیے جائیں۔ ترکی نے مبینہ طور پر چھ ارب یورو کا مطالبہ کیا ہے۔
- ترکی کی یورپین یونین کی رکنیت پر بات چیت کے لیے ایک نئے باب کے آغاز کی تیاری۔
ترکی میں اس وقت 27 لاکھ پناہ گزین موجود ہیں جو خانہ جنگی کے شکار اس کے ہمسایہ ملک شام سے آئے ہیں۔
اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں کے ساتھ بات چيت کے دوران ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے کہا کہ ’ترکی نے تمام بے ضابطہ پناہ گزینوں کے قبول کرنے کا بڑا فیصلہ کیا ہے جو اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ شام کے ہر ایک واپس کیے جانے والے پناہ گزین کے بدلے ایک دوسرے شامی پناہ گزین کی یورپ میں باز آبادکاری کی جائے گي۔‘
ادھر جرمن چانسلر آنگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی کی پیشکش ایک بریک تھرو ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل انھوں نے کہا تھا کہ انھیں ایک ’مشکل بحث‘ کا خدشہ ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے بھی یہ اشارہ دیا کہ ترکی کو دی جانے والی امداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے یورپی یونین پر الزام لگایا ہے کہ وہ امداد کے وعدے پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
گذشتہ سال دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین غیرقانونی طور پر کشتیوں کے ذریعے یورپ میں داخل ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد ترکی سے یونان آنے والوں کی تھی