کھیرا یا بم؟
برطانیہ میں اساتذہ کی یونینز نے برطانوی انسدادِ دہشت گردی کے پروگرام کے ایک حصے پر اعتراض کیا ہے۔
پروگرام کے مطابق اساتذہ اور دوسرے پروفیشنلز کو اگر دہشت گردی کے بارے میں کسی قسم کی کوئی تشویش ہو تو تو انھیں فوراً متعلقہ حکام کو رپورٹ کرنا ہے۔
اس پروگرام کو ’پریوینٹ‘ یعنی ’تدارک‘ کا نام دیا گیا ہے۔
یونینز کا کہنا ہے کہ اساتذہ تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ سکول میں کیا کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس پر بھی بےیقینی کا شکار ہیں کہ کس چیز کو رپورٹ کیا جانا چاہیے اور اس وجہ سے طالب علموں، ان کے والدین اور اساتذہ کے درمیان بد اعتمادی جنم لے رہی ہے۔
ایک چار سالہ سکول کے بچے کی مثال لے لیں جس نے ایک ٹوٹتے ہوئے قلعے اور دوسری قلعے کے محافظوں کے دھماکے میں اڑتے ہوئے تصاویر بنائیں۔ بچے کی ماں کے مطابق، جس کا نام صیغۂ راز میں رکھا جا رہا ہے، ان تصاویر کو دیکھ کر نرسری کا سٹاف چوکنا ہو گیا۔
تصویر میں ایک شخص ’کیوکمبر‘ کاٹ رہا ہے جبکہ نرسری کا عملہ اسے ’کوکر بم‘ کہہ رہا تھا۔ ’میں حیران ہو گئی اور سوچتی رہی کہ یہ لفظ کہاں سے آ گیا۔ جب میں گھر گئی تو اپنے شوہر کو بتایا تو اس نے کہا او میرے خدا، اس (بچے) کا مطلب کیوکمبر تھا۔ جب میرا بچہ کیوکمبر کہتا ہے تو اس کے منہ سے ’کوکر بم‘ نکلتا ہے۔‘
بچے کی ماں کے مطابق نرسری کا عملہ اتنا پریشان ہو گیا کہ اس نے ڈرائنگز کو ’ڈی ریڈیکلائزیشن‘ پروگرام کو رپورٹ کرنا چاہا جسے ’چینل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
ماں کے مطابق اس نے انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
’عملہ چاہتا تھا کہ میں دستخط کروں لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گی۔ جو آپ نے لکھا ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتی۔ میں دہشت گرد نہیں ہوں اور نہ ہی میرا بچہ دہشت گرد ہے۔‘
لندن سے 70 کلومیٹر دور بیڈفورڈ شائر میں واقع نرسری کا کہنا ہے کہ اس نے چینل کو یہ کیس رپورٹ نہیں کیا۔ لیکن اطلاع ہے کہ یہ کیس ایک پینل کے سامنے رکھا گیا جس میں پولیس اور سوشل سروسز کے لوگ بھی موجود تھے۔ پینل نے فیصلہ کیا کہ مزید کسی کارروائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
گذشتہ جولائی سے اساتذہ اور سوشل سروسز کے عملے کا یہ قانونی فرض ہے کہ وہ کسی انتہا پسندانہ رویے کی حکام کو اطلاع کریں۔
جنوری 2012 سے دسمبر 2015 تک 15 برس سے کم عمر کے بچوں کے 1839 کیس رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔
برطانیہ میں اساتذہ کی سب سے بڑی یونین کے ایلکس کینی کہتے ہیں کہ ’اساتذہ ڈرتے ہیں کہ کہیں غلطی نہ ہو جائے۔
’وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے رپورٹ نہ کی تو حکام ان پر تنقید کریں گے۔ لیکن دوسری طرف ایک بچہ ہجے کی غلطی کرتا ہے، یا کچھ عربی میں کہتا ہے تو رپورٹ ہو جاتا ہے۔‘
یونین مانتی ہے کہ سکول کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھے لیکن ساتھ ساتھ وہ حکومت کی حکمتِ عملی پر بھی پریشان ہے۔
ایک اور یونین ’یونائسن‘ بھی اس تشویش کی تائید کرتی ہے۔
دونوں یونینز کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس بارے میں ازسرِ نو غور کرے۔
حکومت کے شعبۂ تعلیم کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پریوینٹ ڈیوٹی‘ سکولوں کی حالیہ ذمہ داریوں سے بالکل مطابقت رکھتا ہے اور اچھے سکول بچوں کو پہلے ہی انتہا پسندی سے محفوظ کر رہے ہیں اور بنیادی برطانوی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں۔
’ہم نے پریوینٹ ڈیوٹی پر ہدایات شائع کی ہیں اور اس شعبے میں وسیع پیمانے پر مشورے اور مواد بھی دستیاب کیا گیا ہے