بھارت کا عدالتی نظام بھی ذات پات پر قائم
بھارت میں کوئی بھی ادارہ مودی کے مذموم سیاسی مقاصد سے بچا ہوا نہیں ،فوج سے لے کر عدلیہ تک سارے ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں۔
بھارت میں نچلی ذات کے لوگوں اوردیگرقبائل کے ساتھ امتیازی سلوک ایک عام سی بات ہے،بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو اچھوت اور کم تر سمجھا جاتا ہے
مودی سرکار کے نام نہاد قوانین کے باوجود انہیں معاشرے میں برابری کامقام حاصل نہیں ہے اور انکا استحصال بدستور جاری ہے
بھارتی نیوز ویب سائٹ کے مطابق 2018سے بھارتی ہائی کورٹس میں تعینات ہونے والے چار ججوں میں سے تین کا تعلق اونچی ذات کی برادریوں سے ہے
اعداد و شمار کے مطابق ہائیکورٹ کے 18 ججوں کا تعلق اونچی ذات سے جبکہ دیگر 9 کا تعلق نچلی ہندو ذات اور مختلف اقلیتوں سے ہے
اسی مدت میں دوسری پسماندہ ذات کی کمیونٹی(او بی سی)کے 72 ججوں (11.92 فیصد) کو ہائی کورٹ کے ججوں کے طور پر ترقی دی گئی اور اقلیتی برادریوں کے ججوں کی تعداد 34 (5.6 فیصد) رہی، دی وائر
دی وائر کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مقرر کردہ 79 فیصد ججز کا تعلق اونچی زات سے تھا جو بھارت میں اقلیتی برادریوں کی پسماندگی اور غیر مساوی نمائندگی کی زندہ مثال ہے۔
لوک سبھا کےمرکزی وزیرقانون ارجن میگھوال نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تقرری آئین کے آرٹیکل 124، 217، اور 224 کے تحت کی جاتی ہے کسی بھی ذات یا طبقے کے افراد کے لیے ریزرویشن فراہم نہیں کرتے ہیں،مودی سرکار اعلیٰ عدلیہ میں سماجی تناؤ کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے،
اس سے قبل بھی بھارتی نیوز ویب سائٹ اسکرول نے مودی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کی تمام عدالتوں میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2010 اور 2020 کے درمیان سال بہ سال 2.8 فیصد اضافہ ہوا جسکے باعث لوگ انصاف کے منتظر ہیں
بھارتی میڈیا کےمطابق مودی حکومت کے لیے عدلیہ ہمیشہ سے ایک سیاسی ورثہ رہی ہے اور مودی نے ہمیشہ اس ورثے کا استحصال کیا ہے۔