‘کسی نےنہیں بتایا، انٹرویو کوئی مسلمان لے گا
میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی اُس وقت غصہ میں آگئیں تھیں جبنشریاتی ادارےکی ایک مسلمان میزبان نے انٹرویو کے دوران اُن سے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے سوال کیا.
دی انڈیپینڈنٹ نیوز پیپر کے صحافی اور حالیہ شائع ہونے والی کتاب ‘دی لیڈی اینڈ دی جنرلز— آن سانگ سوچی اینڈ برماز اسٹرگل فار فریڈم’ کے مصنف پیٹر پوفم نے دعویٰ کیا ہے کہ اکتوبر 2013 میں نشر ہونے والے مذکورہ انٹرویو کے موقع پر آنگ سان سوچی نے آف ایئر غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا، ‘ مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ میرا انٹرویو کوئی مسلمان لے گا’.
مذکورہ انٹرویو میں
پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان میزبان مشعل حسین نے آنگ سان سوچی سے روہنگیا اقلیت کے خلاف ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کا جواب دینے پر زور دیا تھا.
واضح رہے کہ میانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے.
آنگ سان سوچی کا اصرار تھا کہ وہ تشدد نسلی بنیادوں پر نہیں تھا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بدھ مت کے ماننے والے بھی تشدد کا شکار ہوئے، خوف دونوں جانب موجود تھا.
پیٹر نے دی انڈیپنڈنٹ میں ہفتے کو آن لائن شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کا ذکر کیا، جس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ یہ انھیں ایک ‘قابل اعتماد’ ذریعے سے معلوم ہوا تھا.
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رابطہ کرنے پر
آنگ سان سوچی کا اصرار تھا کہ وہ تشدد نسلی بنیادوں پر نہیں تھا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بدھ مت کے ماننے والے بھی تشدد کا شکار ہوئے، خوف دونوں جانب موجود تھا.
پیٹر نے دی انڈیپنڈنٹ میں ہفتے کو آن لائن شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں اس واقعے کا ذکر کیا، جس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ یہ انھیں ایک ‘قابل اعتماد’ ذریعے سے معلوم ہوا تھا.
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رابطہ کرنے پر
میانمار میں بدھ مت کے ماننے والے اکثریت میں ہیں جن کی آبادی 6 کروڑ کے قریب ہے، نصف صدی کی سفاکانہ فوجی حکمرانی کے بعد حال ہی میں اقتدار کی منتقلی کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جب آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے گزشتہ سال 8 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی.
واضح رہے کہ میانمار کی بدھ مت حکومت روہنگیا مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کرتی آئی ہے اور آمریت کے خاتمے کے بعد یہاں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران روہنگیا مسلمانوں کی آبادیوں پر بدھ مت کے ماننے والوں کے ہجوم نے حملہ کیا اور انھیں ان کے گھروں سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
گذشتہ برس بھی یہی کہانی دہرائی گئی اور میانمار میں بدھ مت کے پیروکاروں کے ظلم کا شکار 9 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان، اپنا گھر بار، مال و اسباب چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے۔
یہ دربدر روہنگیا مسلمان کشتیوں میں سوار ہو کر میانمار سے نکلے تو انڈونیشیا، ملائیشیا ،تھائی لینڈ سمیت دیگر پڑوسی ممالک نے انھیں مستقل طور پر اپنانے سے انکار کردیا، جس کے بعد انھوں نے کسی دوردراز افریقی ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنی شروع کی
تاہم روہنگیا مسلمانوں کی کچھ کشتیوں کوانڈونیشیا اور ملائیشیا میں عارضی طور پر پناہ ضرور دی گئی۔
دوسری جانب 70 سالہ آنگ سان سوچی میانمار کی نامزد کابینہ میں واحد خاتون ہیں اور اس حوالے سے خبریں گرم ہیں کہ وہ خارجہ امور، تعلیم ، توانائی اورصدر کے دفتر کے فرائض سنبھالیں گی.
نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی ملکی قانون کے مطابق صدر نہیں بن سکتیں کیوں کہ ان کے شوہر غیر ملکی ہیں، جبکہ برطانوی شہریت رکھنے والے ان کے دونوں بیٹے بھی اسی قانون کے تحت اقتدار میں نہیں آسکتے۔اسی قانون کی وجہ سے آنگ سان سوچی کی جگہ پارٹی کے مقتدر حلقوں میں قابل بھروسہ سمجھے جانے والے اور ملک کے مشہور مصنف اور شاعر من تھو ون کے بیٹے ہِتن کیاو کو صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا