صومالیہ: فوجی کیمپ پر الشباب کا ‘قبضہ
صومالیہ میں القاعدہ کے حامی گروپ الشباب نے افریقین یونین کی فوج کے بیس کیمپ پر حملہ کیا ، جس سے 50 کے قریب فوجیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔
دارالحکومت موغا دیشو سے 330 کلومیٹر دور شمال میں گیڈو میں ایل-ایڈ میں فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔
صومالیہ کے کرنل ادریس احمد کا کہنا تھا کہ کیمپ پر حملہ الشباب نامی شدت پسند تنظیم نے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کیمپ کے مرکزی دروازے پر خود کش حملہ کیا گیا جس کے بعد فوجیوں اور دیگر حملہ آوروں میں جھڑپ شروع ہوئی۔
کرنل ادریس احمد کی جانب سے فوری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کیمپ کینیا کی فوج کے زیر استعمال تھا یا اسے صومالیہ فوج استعمال کر رہی تھی جبکہ انہوں نے حملہ آوروں کی تعداد اور ہلاکتوں کے حوالے سے بھی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
کینیا کی فوج کے ترجمان کے مطابق کیمپ پر صبح ہونے سے کچھ دیر قبل 5بجے حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں نے صومالیہ کی فوج کے کیمپ پر حملہ کیا جبکہ کینیا کی فوج نے شدت پسندوں کے حملے کے جواب میں ان کو نشانہ بنایا، کئی گھنٹوں سے حملہ آوروں سے جھڑپیں جاری ہیں۔
دوسری جانب شدت پسند گروپ الشباب نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کیمپ کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جبکہ 60 کے قریب فوجیوں کو ہلاک کیا گیا۔
الشباب کا دعوی تھا کہ کیمپ میں 30 سے زائد گاڑیاں بھی موجود ہیں جن پر اسلحہ اور بارود موجود ہے جس پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق الشباب نے کیمپ سے فوجی پرچم اتار کر اپنا جھنڈا لگا دیا۔
گیڈو میں دو فوجی کیمپ ہیں جن میں ایک افریقن یونین اور دوسرا صومالیہ کی فوج کے زیر استعمال ہے۔
رپورٹس کے مطابق حملہ صومالیہ کی فوج کے کیمپ پر گیا گیا۔
خیال رہے کہ افریقن یونین کی فوج کی کل تعداد 22 ہزار ہے جن میں 4 ہزار فوجی کینیا ہیں۔
واضح رہے کہ صومالیہ گزشتہ دو دہائیوں سے اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے، القاعدہ کے حامی شدت پسند گروپ الشباب کی جانب سے اکثر مختلف سرکاری تنصبات پر حملے کیے جاتے ہیں۔
صومالیہ کا کچھ حصہ الشباب کے زیر اثر ہے، ایک اندازے کے مطابق شدت پسند تنظیم کے پاس 7000 سے 9000 تک جنگجو موجود ہیں۔
الشباب کے زیر کنٹرول علاقے صومالیہ اور کینیا کی سرحد پر واقع ہیں اس لیے الشباب دونوں ممالک میں فوج کو نشانہ بناتی ہے.
کینیا میں الشباب کے حملے اس وقت شروع ہوئے جب کینیا کی حکومت نے 2011 میں صومالیہ میں شدت پسند تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجے تھے۔A