اگر قانون کا پاس نہ ہوتا تو لاکھوں سر تن سے جدا کر دیتا
انڈیا میں ’بھارت ماتا کی جے‘ پر جاری تنازعے میں اب معروف یوگا گرو بابا رام دیو بھی کود پڑے ہیں۔
رام دیو نے دارالحکومت دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کے روہتک میں ایک پروگرام میں کہا کہ وہ آئین اور قانون کا احترام کرتے ہیں، نہیں تو لاکھوں سر تن سے جدا کر دیتے۔
رام دیو نے کہا: ’کوئی آدمی ٹوپی پہن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ بولتا ہے کہ میں بھارت ماتا کی جے نہیں بولوں گا چاہے میری گردن کاٹ لو، ارے اس ملک میں قانون ہے ورنہ تیری ایک کی کیا ہم تو لاکھوں کی گردن کاٹ سکتے ہیں، لیکن ہم اس ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ انڈیا میں گذشتہ چند ماہ سے ’بھارت ماتا کی جے‘ پر تنازع جاری ہے اور مختلف گوشوں سے اس کی حمایت اور مخالفت میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔
کانگریس اور آر جے ڈی کے بعض رہنماؤں نے بابا رام دیو کے بیان کی مخالفت کرتے ہوئے ان کے خلاف اقدام کی بات کہی ہے۔
کانگریس کے ایک ترجمان سنجے جھا نے ٹویٹ کیا ہے کہ ’بابا رام دیو آر ایس ایس کے کانفرنس میں سر کاٹنے کی دھمکی دیتے ہیں جو کہ تشدد بھڑکانا اور عوام کو ڈرانا ہے۔۔۔ مسٹر مودی ہمیں آپ کی کارروائی کا انتظار ہے۔
جبکہ آر جے ڈی رہنما منوج جھا نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا: ’وہ سب بھارت کو ہندو طالبان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت ماتا کی جے سے کوئی مطلب نہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ نہ کبھی گاندھی جی نے ’بھارت ماتا کی جے‘ لکھا نہ نہرو نے نہ سبھاش بوس نے نہ امبیدکر نے وہ سب ’جے ہند‘ لکھا کرتے تھے۔
گذشتہ ماہ آل انڈیا مجلس اتحاد مسلمین کے صدر اور ایم پی اسد الدین اویسی نے کہا تھا کہ اگر کوئی ان کی ’گردن پر چھری بھی رکھ دے تب بھی وہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہیں گے۔‘
اس کے جواب میں حکمراں جماعت بی جی پی کے جنرل سیکرٹری کیلاش وجے ورگیا کا کہنا تھا کہ جو بھی ’بھارت ماتا کی جے‘ نہیں کہہ سکتا اسے بھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے
حالانکہ رام دیو نے اپنی تقریر میں اویسی کا نام نہیں لیا تاہم تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹوپی کے ذکر سے ان کا اشارہ بظاہر اسد الدین اویسی اور مسلمانوں کی جانب ہے۔
اسی معاملے پر مہاراشٹرا میں اسد الدین کی پارٹی کے رکن اسمبلی وارث پٹھان کو اسمبلی سے معطل کر دیا گيا تھا۔
جبکہ گذشتہ ہفتے دیوبند میں واقع اسلامی تعلیم کے اہم مرکز دارالعلوم نے ایک فتوی جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانا مذہب اسلام کے منافی ہے۔
دارالعلوم دیوبند نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ انھیں اپنے ملک سے محبت ہے اور ہم’ ہندوستان زندہ آباد‘ جیسے نعرے لگا سکتے ہیں