لیبیا میں بدترین غلطی ہوئی: اوباما کا اعتراف
صدر اوباما امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز پر ایک انٹرویو میں اپنے دورِ اقتدار کے دوران کیے گئے اقدامات کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
صدر اوباما نے قدافی کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد کے حالات کے بارے میں مناسب منصوبہ بندی نہ کرنے پر اپنی غلطی کے اعتراف کے باوجود لیبیا میں مداخلت کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ صحیح اقدام تھا۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے لیبیا میں سنہ 2011 میں شہریوں کی حفاظت کے لیے لیبیا پر فضائی حملے کیے تھے۔
لیبیا میں سابق صدر قدافی کے قتل کے بعد لیبیا افراتفری کا شکار ہو گیا اور متحارب دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو گئی اور دو متوازی پارلیمان اور حکومتیں قائم کر لی گئیں۔
اس صورت حال میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو لیبیا میں قدم جمانے میں مدد ملی اور لیبیا یورپ آنے والے شامی مہاجرین کے لیے آسان گزرگاہ بن گیا۔
اس ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ’متحدہ حکومت‘ کے اہلکار طرابلس پہنچے تھے لیکن وہ اقتدار منتقل کیے جانے کے منتظر ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر اوباما نے لیبیا کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا ہو۔ گذشتہ ماہ ایک میگزین کو انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ لیبیا میں کارروائی میں پیش رفت ان کی توقع کے عین مطابق ہوئی لیکن اس کے باوجود لیبیا آج بحران کا شکار ہے۔
اُس انٹرویو میں انھوں نے فرانس اور برطانیہ پر تنقید کی تھی اور خاص طور پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں کہا تھا کہ لیبیا میں مداخلت کے بعد ان کی توجہ دوسرے امور کی وجہ سے بٹ گئی۔
فوکس نیوز کو اپنے انٹرویو میں انھوں نے اپنے دورِ اقتدار کا سب سے بڑا کارنامہ معیشت کو بڑی کساد بازاری سے بچانا قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے آٹھ سالہ دور کا سب سے پر مسرت دن وہ تھا جب ہیلتھ کیئر یا صحت عامہ میں اصلاحات کا قانون منظور ہوا۔ انھوں نے کہا کہ بدترین دن وہ تھا جب سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔
صدر اوباما نے گذشتہ برسایک انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکہ میں ذاتی اسلحے کے بارے میں سخت قوانین متعارف کرانے میں ناکامی ان کے لیے سب سے زیادہ مایوسی کا باعث ہے۔