سی آئی اے کو تشدد کے طریقے بتانے پر ماہرینِ نفسیات پر مقدمہ
امریکہ کے ایک وفاقی جج نے دو ماہرینِ نفسیات کے خلاف سی آئی اے کی سخت تفتیش میں مدد دینے کا مقدمہ کارروائی کے لیے منظور کر لیا ہے۔
وفاقی جج نے فیصلہ سنایا کے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جن ماہرینِ نفسیات نے سی آئی اے کی جانب سے تفتیش کے طریقوں کو ڈیزائن کرنے میں مدد دی ان کی خلاف مقدمے آگے بڑھایا جائے۔
امریکہ کی سول لبرٹی یونین نے کیمز ای مچل اور جان بروس جیسن پر ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا۔ یہ دعوی سی آئی اے کے تین سابق قیدیوں کی جانب سے کیا گیا۔
ان ماہرین پر الزام ہے کہ انھوں نے تشدد کے طریقوں کی توثیق کی۔
ماہرینِ نفسیات کے وکلا کا کہنا ہے کہ انھوں نے محض ایک پروگرام کو ڈیزائن کیا تھا لیکن وہ اس پر عمل درآمد میں ملوث نہیں تھے۔
ایک سو سے زائد قیدی دورانِ تفتیش تشدد کے ان طریقوں کا نشانہ بنے۔ ان طریقوں میں سونے نے دینا، (واٹر بورڈنگ) پانی میں ڈوبنے کا ڈر، مار پیٹ شامل ہے۔
سنہ 2012 میں وزارتِ انصاف نے اعلان کیا تھا کہ اس پروگرام کے ذمہ دار سی آئی اے کے اہلکاروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
یاد رہے کہ سی آئی اے نے تسلیم کیا تھا کہ اس پروگرام کے دوران خصوصاً ابتدائی عرصے میں غلطیاں ہوئیں جب وہ قیدیوں کو زیرِ حراست رکھنے اور ان سے تفتیش کے اتنے بڑے پیمانے کی کارروائی کے لیے تیار نہیں تھی۔ امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ردعمل میں تھا کہ سی آئی اے کے تفتیشی طریقے امریکی اقدار کے خلاف تھے۔
خیال رہے کہ امریکہ کے ری پبلکن صدر جارج بش کے دورِ صدارت میں سی آئی اے کی القاعدہ کے خلاف کارروائی کے دوران 100 سے زیادہ مشتبہ دہشت گردوں کو امریکہ سے باہر ’بلیک سائٹس‘ یا خفیہ قیدخانوں میں رکھا گیا تھا۔ دورانِ تفتیش کچھ قیدیوں کو 180 گھنٹے یعنی تقریباً ساڑھے سات دن تک سونے نہیں دیا گیا جبکہ واٹر بورڈنگ کے دوران ابو زبیدہ سمیت کئی قیدی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔