طالبان کو آمادہ کرنے کی ذمہ داری صرف پاکستان کی نہیں
پاکستان نے دہشت گرد گروہوں میں تفریق کے حوالے سے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں میں عدم تفریق پر یقین رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور اُس کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کے پہلے دور کی میزبانی کی تھی لیکن افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی ذمہ داری تنہا پاکستان پر ہی نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کے لیے پاکستان نے سنجیدہ کاوشیں کی ہیں۔
ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکوں پر مشتمل گروپ بنانے کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام لانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔
یاد رہے کہ پیر کو افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور پاکستان کے ساتھ تعلقات پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ملک طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے سلسلے میں پاکستان سے توقع نہیں رکھتا۔
افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ’ہمیں یہ اُمید نہیں رکھتے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ ہم چار ملکوں کے معاہدے کے تحت پاکستان سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری رکھے۔‘
افغان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مصالحتی عمل میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
صدر اشرف غنی نے کہا کہ ’کوئی اچھا اور برا دہشت گرد نہیں ہے۔ یہ سب دہشت گرد ہیں اور پاکستان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔
افغان صدر نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان سے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتا تو وہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے چار ملکوں کے گروپ ہارٹ آف ایشیا کے تحت سینیئر رہنماؤں کا اجلاس نئی دہلی میں جاری ہے جبکہ چار ملکی امن مذاکرات کے مصالحتی عمل کا پانچواں اجلاس رواں ہفتے اسلام آباد میں ہونے والا ہے۔