پناہ گزینوں کا بحران، ’یورپ کے پاس زیادہ وقت نہیں
گذشتہ برس دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کی یورپ آمد سے ایک بحران پیدا ہوا جس کے فوری خاتمے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے پاس اس معاملے پر قابو پانے کے لیے دو ماہ سے زیادہ کا وقت نہیں ہے۔
یورپی یونین کے موجود ڈبلن نظام کے تحت پناہ کے خواہشمند افراد کو اس یورپی ملک میں درخواست دینا ہوتی ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔
تاہم یہ نظام گذشتہ برس اس وقت ناکامی کا شکار ہوگیا تھا جب اٹلی اور یونان کے ساحلوں پر پہنچنے والے پناہ گزینوں نے بنا رجسٹریشن شمالی یورپ کا رخ کر لیا تھا۔۔
اس نظام کی ناکامی کے بعد تنظیم کے کچھ رکن ممالک نے اپنے طور پر سرحدی پابندیاں بھی عائد کر دی تھیں۔
یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلاڈ جنکر نے منگل کو کہا ہے کہ ’ڈبلن قوانین‘ کے جائزے کی تجاویز جلد ہی سامنے لائی جائیں گی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف امکانات زیرِ غور ہیں جن کا مقصد ایک ایسے نظام کی تشکیل ہے جس کے تحت پورے براعظم میں پناہ گزینوں کی منصفانہ تقسیم ہو سکے۔
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر رواں برس مارچ تک اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو براعظم یورپ کے ممالک میں سفر کا ’شینگن‘ نظام بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ادھر یورپی ملک ناروے نے اپنے ان نئے قوانین پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے جن کے تحت پناہ کے طالب ایسے افراد کو واپس بھیج دیا جائےگا جو کسی محفوظ ملک سے ناروے میں داخل ہوں گے۔
اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں 13 پناہ گزینوں کو بذریعہ بس واپس روس بھیجا گیا ہے۔
ناروے میں اس وقت ساڑھے پانچ ہزار پناہ گزین ایسے ہیں جنھیں روس بھیجا جانا ہے اور ان میں سے بیشتر کا تعلق شام سے ہے۔
یہ افراد سنہ 2015 کے آخری چھ ماہ کے دوران ناروے پہنچے تھے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں کا کہنا ہے کہ 2015 میں صرف سمندر کے راستے ہی دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین یورپ پہنچے تھے۔
ادارے کے مطابق ساڑھے آٹھ لاکھ تارکینِ وطن ترکی سے یونان میں داخل ہوئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ افراد لیبیا سے بحیرۂ روم عبور کے اٹلی پہنچے۔
یو ین ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ بحیرۂ روم عبور کر کے یورپ میں داخل ہونے والوں میں 49 فیصد کا تعلق شام سے جبکہ 21 فیصد کا تعلق افغانستان سے ہے۔
اس مہلک سفر کے دوران 3700 سے زیادہ افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔