صادق خان: بس ڈرائیور کے بیٹے کا لمبا سفر
لندن کے میئر کے انتخاب میں لیبر پارٹی کے امیدوار کئی لحاظ سے حزب اقتدار کنزرویٹیو پارٹی کے امیدوار کے بالکل برعکس ہیں۔
پاکستانی نژاد صادق خان اپنے مدمقابل کے برعکس کسی امیر کبیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتے، اور وہ ایک محنت کش انسان کے صاحب زادے ہیں اور ان کے والد لندن میں بس ڈرائیور تھے۔
صادق خان نے ایک عام سرکاری سکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ ڈگری حاصل کر کے وہ انسانی حقوق کے وکیل بنے اور لندن کی میٹروپولیٹن کے خلاف نسلی تعصب کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔ نیشن آف اسلام نامی تنظیم کے لوئس فرح خان پر پابندی ہٹائے جانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔
اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انھوں نے سنہ 2005 لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔
انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے وہ جلد ہی برطانوی دارالعوام میں قائد ایوان جیک سٹرا کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہو گئے۔
وہ برطانوی پارلیمان میں ’فرنٹ روز‘ یا حزب اقتدار کی پہلی نشستوں پر بیٹھنے والے پہلے مسلمان رکن پارلیمان تھے۔ انھوں یہ اعزاز لوکل گورنمنٹ اور ڈپارٹمنٹ آف کمیونیٹز کے وزیر کے طور پر حاصل کیا۔ بعد ازاں وہ وزیر ٹرانسپورٹ بھی رہے۔
حزب اختلاف کے رکن پارلیمان کی حیثیت سے وہ شیڈو وزیر انصاف رہے اور انھوں نے حکومت کی طرف سے لیگل ایڈ کے نظام میں اصلاحات کے خلاف بھی مہم چلائی۔
میئر کے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے انھوں نے کنزرویٹیو پارٹی کے موجودہ میئر بورس جانسن کو ’ریڈ کارپیٹ‘ میئر قرار دیا اور کہا کہ وہ لندن کے تمام شہریوں کی یکساں خدمت کریں گے۔
اپنے مد مقابل زیک گولڈ سمتھ کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران وہ لندن میں رہائش کے مسئلے پر کئی مرتبہ بحث کر چکے ہیں۔ ان کے خیال میں لندن میں ہر سال 80 ہزار نئے مکانات یا ہاؤزنگ یونٹس تعمیر کیے جانے چاہیں اور ان میں 50 فیصد کی قیمت ایسی ہونی چاہیے جو عام آدمی کی پہنچ میں ہو۔