آخر داعش کے غیر ملکی جنگجوؤں کے ساتھ کیا ہوا؟
2014 میں شام اور عراق کے مقبوضہ علاقوں میں خلافت کا اعلان کرنے والی عسکریت پسند تنظیم داعش کے 40ہزار غیر ملکی جنگجوؤں کے بارے میں مختلف سوالات اٹھ گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شام اور عراق کی اتحادی افواج کی جانب سے داعش کو مختلف مقامات پر شکست اور قبضہ ختم ہونے کے باوجود چند سو جنگجو داعش کی جدوجہد کو برقرار رکھنے کے لیے لڑنے پر یقین رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے امریکی ماہرین کا کہنا تھا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر کا کیا ہوا؟ کئی ہزار جنگجو لڑائی میں مارے جاچکے لیکن بہت سے زندہ بچ گئے تھے جس سے خطرہ اب بھی موجود ہے۔
رینڈ کارپوریشن میں بین الاقوامی سیکیورٹی اور دفاعی پالیسی مرکز کے ڈائریکٹر سیتھ جونس کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ابھی ہمیں ان سوالات کے جوابات نہیں معلوم کہ اب تک کتنے جنگجو مارے جاچکے ہیں؟ کتنے وہاں موجود ہیں اور کتنے لڑنا چاہتے ہیں جبکہ کتنے ہیں جو لڑنے کے لیے کہیں اور منتقل ہوگئے ہیں؟
بین الاقوامی انسداد دہشت گردی گروپ جو داعش کے غیر ملکی جنگجوؤں کو ٹریک کرتا ہے وہ ان تمام سوالات کا جواب جاننے کے لیے بڑی کوششیں کررہا ہے۔
اس حوالے سے فرانس کے حکام کا کہنا ہے کہ 2013 میں داعش میں شامل ہونے کے لیے 1700 کے قریب لوگ عراق اور شام گئے تھے، جس میں سے 400 سے 450 مارے گئے جبکہ 250 واپس فرانس آگئے۔
فرانس کے وزیر خارجہ جینس یوس لی ڈرین نے گزشتہ دنوں بتایا کہ تقریباً 500 لوگ اب بھی عراق اور شام میں ہیں اور اب ان کے لیے فرانس واپس آنا بہت مشکل ہے۔
یک طرفہ ٹکٹ
جیورج ٹاؤن یونیورسٹی میں دہشت گردی کے ماہر بروس ہوفمین نے گذشتہ ہفتے ایک کانفرنس میں اندازہ لگاتے ہوئے بتایا تھا کہ ہزاروں جنگجو جنگ کے علاقے سے فرار ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج ان لوگوں میں سے کچھ بالکنز میں ہیں، جو اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ یورپ میں دراندازی کرسکیں۔
سینٹر فار اسٹریٹجک اور بین الاقوامی تعلیم کے ماہر تھومس سینڈرسن کے مطابق ان میں سے کچھ جنگجو دیگر جہادی گروپوں میں شامل ہوگئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر مراکش، روس، سعودی عرب اور یمن سے کم سے کم 80 جنگجوؤں نے مئی سے اب تک داعش کے اتحادی ابو سیف کے ساتھ شمولیت اختیار کی، جو جنوبی فلپائن میں حکومتی فورسز سے لڑ رہے ہیں۔
افغانستان کے شمالی صوبے جوزجان کے مقامی لوگوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ فرانس یا شمالی افریقہ کے ممالک سے فرانسیسی زبان بولنے والے داعش کے جنگجوؤں نے حال ہی میں وہاں ایک کیمپ قائم کیا ہے۔
خیال رہے کہ عراق اور شام میں جنگ میں داعش کی شکست کے باوجود ان کے فرار ہونے کے راستے بند نہیں کیے جاسکے، داعش کے جنگجو شہری پناہ گزینوں کے ساتھ مل جاتے ہیں یا رشوت کے ذریعے ترکی پہنچ جاتے ہیں۔
سیتھ جونس کے مطابق زیادہ تر کے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے، ان کے پاس اپنے آبائی ممالک لوٹنے کا کوئی پلان نہیں تھا کیونکہ واپسی کی صورت میں انہیں بہت سے مقدمات میں قید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بہت سے جنگجوؤں کے لیے یہ ایک یک طرفہ سفر تھا کیونکہ وہ ہمیشہ خلافت میں رہنا چاہتے تھے، لہٰذا اس حوالے سے ہمیں کوئی بڑی واپسی نظر نہیں آرہی۔