سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے فرانس میں 30 کروڑ ڈالر کے محل کا انکشاف
دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ خریدنے کے بعد اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دنیا کے سب سے مہنگے گھر کے بھی خریدار نکلے جو انہوں نے 30 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے فرانس میں خرید رکھا ہے، جبکہ کرپشن میں ملوث سعودی ولی عہد نے درجنوں سعودی شہزادوں کو کرپشن میں قید کررکھا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ خریدنے کے بعد اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دنیا کے سب سے مہنگے گھر کے بھی خریدار نکلے جو انہوں نے 30 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم سے فرانس میں خرید رکھا ہے، جبکہ کرپشن میں ملوث سعودی ولی عہد نے درجنوں سعودی شہزادوں کو کرپشن میں قید کر رکھا ہے۔
چیٹیو لوئس فرانس کے ایک سابق لارڈ کی رہائش گاہ ہے جو وسیع رقبے پر مشتمل ہے اور اس میں 57 ایکڑ رقبے پر محیط ایک پارک بھی شامل ہے اسے سا ل 2015ء میں کسی نامعلوم شخصیت نے 30 کروڑ ڈالر (33 ارب 10 کروڑ روپے) میں خریدا تھا ، معروف امریکی جریدے فوربس نے اسے دنیا کی مہنگی ترین رہائش گاہ قرار دیا تھا، اس گھر میں وسیع رقبے کا فش ایکوائریم، سنیما گھر اور زیر زمین نائب کلب بھی موجود ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق اس رہائش گاہ کو فرانس اور لکسمبرگ سے تعلق رکھنے والی آٹھ کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے ذریعہ خریدا گیا تاہم خریدار کا نام پوشیدہ رکھا گیا تھا۔
اب نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں سعودی شاہی خاندان کے قریبی ذرائع کےحوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ اس رہائش گاہ کو خریدنے والی تمام سرمایہ کار کمپنیاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی ایک مدر فرم کی ملکیت ہیں، سعودی شاہی خاندان کے مشیر نے اس بات کی تصدیق کردی ہے۔ واضح رہے کہ اکتوبر میں جاری ہونے والے پیراڈائز پیپر لیکس میں انکشاف ہوا تھا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے روسی ٹائیکون کی ملکیت 440 فٹ طویل لگژری بحری جہاز 45 کروڑ پاؤنڈ میں خریدا، جب کہ نومبر میں یہ راز افشاں ہوا کہ لیونارڈو ڈاؤنچی کی ایک معروف پینٹنگ 450 ملین ڈالر میں خریدنے والا بھی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں اس وقت کرپشن کے خلاف مہم جاری ہے، سعودی شاہ اور ولی عہد کے ایما پر 200 سے زائد افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں ان میں سعودی شہزادے، سابق وزرا، بزنس ٹائیکون کے سربراہان اور کاروباری شخصیات شامل ہیں ۔ سعودی عرب کے عیاش ولیعہد کی شاہ خرچياں اور کرپشن منظر عام پر آنے کے بعد کرپشن کے خلاف اس کی مہم پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔