انتخابی مہم میں جو زبان استعمال کی اس پر افسوس ہے
مریکہ میں رپبلکن پارٹی کی جانب سے ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھیں اپنی انتخابی مہم پر ’افسوس‘ ہے لیکن ان کے بقول وہ اس کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کی پریزینٹر میگن کیلی سے انٹرویو کے دوران کی جن کے ساتھ گذشتہ سال اگست میں ہونے والی پہلی صدارتی بحث کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی تلخ کلامی ہوئی تھی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ان کے بارے میں طنز کرتے ہوئے ری ٹوئٹ میں ’بِمبو‘ کیوں کہا تھا، تو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: ’کیا میں نے ایسا کہا؟ او، میں معذرت خواہ ہوں۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انٹرویو کو دونوں شخصیات کے درمیان کئی ماہ سے جاری لڑائی کو ختم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اگست میں ہونے والے مباحثے کے دوران میگن کیلی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے خواتین کے بارے میں ان کے بیانات پر بار بار سوال کیے تھے۔
جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’مجھے نہیں پتہ کہ میگن کیلی کا خون کہاں کہاں سےنکل رہا ہے۔
منگل کو میگن کیلی نے اس مسلے کو دوبارہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ سینیٹر جان میک کین اور سابق حریف رپبلکن امیدوار کارلی فیورینا کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر سوال کیا کہ کیا انھیں اپنے ان بیانات پر افسوس ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے جواب میں کہا کہ ’میرے خیال میں ہاں، لیکن آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ آپ غلطی کو ٹھیک کر سکتے ہیں لیکن ماضی میں جھانکنا اور کہنا کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا، میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے، یہ صحت مندانہ رویہ نہیں ہے۔‘
ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اصل ٹویٹس تو ’اچھی کیں لیکن ری ٹویٹ قاتلانہ تھیں۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’سابق حریف ٹیڈ کروز کی اہلیہ ہائڈی کروز کے بارے میں مذاق اڑانے والی پوسٹ کو ری ٹویٹ نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔‘
میگن کیلی نے ان سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا انھیں اپنی نو ماہ پر محیط انتخابی مہم پر افسوس ہے؟
انھوں نے کہا کہ ’بالکل، مجھے افسوس ہے۔ میں کچھ چیزوں کو الگ انداز سے کر سکتا تھا۔ میں شاید الگ زبان استعمال کر سکتا تھا لیکن مجموعی طور پر مجھے اس کے نتائج سے بہت خو ش ہونا چاہیے۔اگر میں ایسا نہ کرتا جیسا کہ میں نے کیا تو مجھے نہیں لگتا کہ میں کامیاب ہو سکتا تھا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر صدارت حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی ان کی انتخابی مہم کا اختتام ناکامی پر ہوا تو ’میں اسے وقت، توانائی اور پیسے کا مکمل ضیاع سمجھوں گا۔‘انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے شمالی کوریا کے رہنما سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’میں شمالی کوریا کے قائد کم جونگ اُن سے بات کروں گا کیونکہ مجھے ان سے بات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔