افغان امن عمل اور پاکستان کی لال بتی
شاید بعض ملاقاتوں کا مقصد محض نشستاً برخاستاً ہوتا ہے۔ کبھی کبھی واحد مقصد صرف ملاقاتوں کے سلسلے کو جاری رکھنا ہوتا ہے تاکہ وقتی تعطل یا کسی پیش رفت کے باوجود رابطہ رکھا جائے۔
افغانستان میں قیام امن اور مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے گذشتہ برس قائم چار ملکی گروپ کا اسلام آباد میں آخری اجلاس شاید یہی کچھ تھا۔ اس میں نہ تو افغانستان اور نہ جواب میں پاکستان کی جانب سے اعلیٰ قیادت نے شرکت کی جواس کی اہمیت کم کرنے کا باعث بنا
افغان قضیے کے حل کے اس طریقۂ کار سے افغانستان کی ناراضی کا اظہار ماضی کے چار اجلاسوں کے برعکس نائب وزیر خارجہ کی شرکت نہ کرنے سے ہوتا ہے۔ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے افغان پارلیمان سے خطاب میں مذاکرات یا پاکستان سے کوئی امید رکھنے کو خام خیالی قرار دیا تھا۔
پھر ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ افغانستان اس عمل میں سرے سے شریک ہی نہیں ہونا چاہتا لیکن شاید مکمل نہ کی جگہ افغانستان نے ’دوست ممالک‘ کے مشورے پر بہتر سمجھا کہ کم از کم اسلام آباد میں اپنے سفیر کو ہی اس کے لیے بھیج دیں
اس مصالحتی عمل کو لے کر افغانستان میں ناامیدی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان کے اخبار ’ہشت صبح‘ نے لکھا کہ اس گروپ کے اجلاس میں شرکت کی افغانستان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اصل بات ہے پاکستان کو طالبان کے خلاف کارروائی پر مجبور کیا جائے۔ کسی پیش رفت کی عدم موجودگی میں افغانستان کا یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ وہ اگر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک نہیں لا سکتا تو کم از کم اس کے خلاف اپنے ملک میں کارروائی کا آغاز کر دے۔
پاکستان تاہم اس مطالبے کو مسترد کرتا آیا ہے۔ اس کو شاید یقین ہے کہ طالبان ابھی نہیں تو شاید ماہ دو کے بعد بات چیت کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ وہ کہتا ہے کہ مذاکرات کی آپشن کو اتنی جلد ختم تصور نہ کیا جائے اور ایک مرتبہ کارروائی شروع ہوئی تو پھر مذاکرات نہیں ہو پائیں گے۔
بدھ کے اجلاس کے بعد کے معمول کے بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صرف مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا شاید دہائیوں قدیم ارادہ دہرایا گیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری اب تک کے اس مشترکہ گروپ کے ’مختصر ترین‘ بیان میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ہی بیان کا دو مرتبہ جاری کیا جانا بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ترمیم کیا تھی دوسرے میں
اتنے پیچیدہ اور پرانے مسئلے کا شاید اگر افغانستان، امریکہ اور چین چار پانچ ملاقاتوں میں حل تلاش کر رہے تھے تو شاید وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
ان کی بے صبری دوسرے تیسرے اجلاس سے واضح تھی۔ وہ روڈ میپ یا ضابطہ کار سے زیادہ طالبان کو ’فیس ٹو فیس‘ دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ مری میں دیدار کروانے کے بعد طالبان کوئی اتنی آسانی کہاں ہاتھ آسکتے ہیں۔ وہ بھی ’مصروف‘ لوگ ہیں اگلے حملے کی تیاری کرنی ہوتی ہے، تنظیمی امور دیکھنے ہوتے ہیں۔ طالبان کا ایک وفد جو خاموشی سے اور حکومت پاکستان کی لاعلمی کے یا نیند کی نازک حالت میں اس کے کان میں کیا کہہ کر گیا ہے اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔ شاید کوئی زیادہ جذباتی بات نہیں کی ورنہ مشترکہ بیان میں تمام شرکا کو اپنا اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے اور حصہ ڈالنے کی بات نہ ہوتی۔
فی الحال پاکستان وہ واحد ٹرک ہے جس کی لال بتی کے پیچھے باقی تین ممالک مودبانہ طور پر چل رہے ہیں۔ سڑک پہلے ہی کچی اور خراب ہو چکی ہے اور موٹروے جیسی عیاشی کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ہے۔