دریائےگنگا کو کسانوں سے بھی خطرہ ہے
انڈیا میں دریائے گنگا کی صفائی کے لیے صرف یہ اہم نہیں ہے کہ دریا میں کیا ڈالا جا رہا ہے، بلکہ اتنا ہی اہم یہ پہلو بھی ہے کہ اس سے کیا نکالا جا رہا ہے؟
یہ دریا بہت بڑے علاقے سے گزرتا ہے۔ اس کا میدانی حصہ تقریباً دس لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس علاقے میں سوا ارب کی آبادی والے ملک کے تقریبا 40 فیصد لوگ رہتے ہیں۔
اس وسیع و عریض علاقے میں گنگا سے آبپاشی اور پینے کے استعمال کے لیے پانی نکالا بھی جاتا ہے۔ مثال کے طور پر دہلی کے زیادہ تر حصوں میں آنے والا پانی دو اہم نہروں سے آتا ہے۔ اس میں سے ایک نہر گنگا سے نکلتی ہے اور دوسری جمنا سے۔
دریا کے اہم بہاؤ سے پانی کا نکالا جانا ایک مسئلہ ہے لیکن زیادہ سنگین پہلو زمین کے اندر سے پانی کا نکالا جانا ہے۔
گنگا کے دونوں کناروں کا وسیع میدانی حصہ انڈیا کے لیے صدیوں سے غذا بھی فراہم کرتا رہا ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے راجیش واجپئی بتاتے ہیں کہ گنگا کے میدانی علاقے کی زمین تب تک زرخیز ہے جب تک کسان اس کی آبپاشی مناسب طریقے سے کرتے ہیں۔
واجپئی گذشتہ دو دہائیوں سے گنگا کے میدانی حصے میں کسانوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اس علاقے کے کسان کم سے کم پانی کا استعمال کریں۔
اس علاقے میں کنواں کھودنا بہت مشکل کام نہیں ہے۔ پانی یہاں گم گہرائی پر ہی مل جاتا ہے یعنی آپ چند دنوں میں کنواں کھود سکتے ہیں۔
ایک كنویں کی کھدائی کے بعد پانی کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں رہتی، جب تک موٹر پمپ میں ایندھن ہے، تب تک آپ پانی باہر نکال سکتے ہیں۔
گنگا کے میدانی حصے کے تقریباً 20 کروڑ کسانوں میں سے تقریباً ہر شخص کے پاس کنواں یا ٹیوب ویل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کے نیچے پانی کی سطح مسلسل گرتی جا رہی ہے۔
نیشنل جيوفزیكل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سائنسدانوں نے سنہ 2012 میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ دہلی میں آئندہ چند سالوں میں پانی کی سطح بہت نیچے چلی جائے گی۔
اس علاقے میں دریا سے اتنا پانی نکالا جاتا ہے کہ بہت سے حصوں میں موسم گرما کے مہینوں میں دریا کسی نالے کی طرح نظر آنے لگتا ہے۔
اس قسم کی صورت حال خشک سالی کا سامنا کرنے والے ملک کے لیے اچھی نہیں اور وہ بھی ایسے میں جب گذشتہ دو سال سے مناسب مون سون نہیں آیا ہے۔
لیکن واجپئی کو یقین ہے کہ انھوں نے اس سمت میں اقدامات کیے ہیں۔ انھوں نے کسانوں کو کم پانی میں کاشت کرنا سکھایا ہے۔ اس کے تحت فارم کے ایک حصے کو سیراب کرنے کے بعد اسی پانی کو دوسری طرف موڑنا ہے۔
اس طرح کاشت کرنے والے کسان شری رام کا کہنا ہے: ’پہلے ہم بہت پانی کا استعمال کرتے تھے، لیکن اب ہم کم پانی میں ہی آبپاشی کر لیتے ہیں۔ ہم پانی پر کم پیسہ خرچ کرتے ہیں اور اچھی پیداوار بھی ہوتی ہے۔‘
اگر ایسے طریقے پورے ملک میں اپنائے جائيں تو پانی کی نیچے جاتی ہوئی سطح کو روکا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود بہت سے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ اس مسئلے کے کہیں زیادہ بہتر حل کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسانوں پر پانی کی اہمیت کو بہتر طریقے سےواضح کرنے ضرورت ہے۔
یعنی ماہرین اقتصادیات کے مطابق کسانوں کو امداد اور رعایت دینا بند کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کی مدد سے وہ گنّا اور کپاس اگاتے ہیں، جس میں زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کی رائے یہ بھی ہے کسان جتنا پانی استعمال کریں ان سے اس کی قیمت وصول کی جائے لیکن اس کا امکان کم ہی ہے۔
کیونکہ ملک کی دو تہائی آبادی اب بھی زراعت پر منحصر ہے اور یہ طبقہ ووٹ کے لحاظ سے بھی انتہائی اہم ہے، ایسے میں بھارتی سیاستدان کسانوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیں گے۔