ڈوب کر مر جانے والے شامی پناہ گزینوں کی یاد میں بحیرہ روم کے ساحل پر
ترکی کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے بحیرہ روم عبور کرتے وقت ہلاک شدگان کے لئے بحیرہ روم پر تیرتی ہوئی علامتی قبریں بنائی ہیں جو اس سانحے میں ہلاک ہوجانے والوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
اب تک شام و عراق سے خطرناک بحیرہ روم عبور کرکے یورپ اور ترکی پہنچنے کی کوشش میں ہزاروں افراد سمندر برد ہوچکے ہیں۔ شامی تنازعے میں جہاں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ہیں وہیں لاکھوں افراد بے گھر ہوکر ترکی، لبنان اور دیگر یورپی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی بھرمار دوسری جنگ عظیم کے بعد تارکین کی سب سے بڑی آمد ہے۔
شام کی ہولناک صورتحال سے فرار کی کوشش میں اب تک 4 ہزار سے زائد تارکینِ وطن سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے ۔ یاد رہے کہ 3 سالہ ایان کردی کی بے حس و حرکت لاش کی تصویر نے دنیا بھر میں سنسنی پھیلادی تھی اور اس کے بعد یورپ نے شامی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھولے تھے۔
مرنے والے لاتعداد لوگوں کی یاد میں یہ ’’سمندری قبرستان‘‘ بحیرہ روم کے ساحل پر بنایا گیا ہے جس میں 200 قبر اور کتبے پانی پر ڈولتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے ایک میں ننھے ایلان کردی کا نام بھی تحریر ہے۔ ترکی کی غیر سرکاری تنظیم ’ دستک برائے مدد‘ نے کہا ہے کہ اس مہم کا مقصد شامی عوام کی تکالیف کو واضح کرنا اور ان کے لیے فنڈ جمع کرنا ہے۔
2011 میں شامی تنازعے کے بعد اب تک 46 لاکھ افراد اپنا ملک چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے ربڑ اور پلاسٹک کی ناقابلِ بھروسہ کشتیوں میں بیٹھ کر سمندر عبور کرنے کی کوشش کی اور جان کی بازی ہار گئے۔ ۔